ملازم مایوس، کسان نظر انداز، اب انڈسٹری پھلے پھولے گی

عظیم نذیر  جمعـء 6 جون 2014
تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ نامنظور… افراط زر حقیقت میں 12 فیصد ہے… زراعت کو ٹیکسوں کی نہیں سپورٹ کی ضرورت ہے۔   فوٹو : ظہور الحق

تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ نامنظور… افراط زر حقیقت میں 12 فیصد ہے… زراعت کو ٹیکسوں کی نہیں سپورٹ کی ضرورت ہے۔ فوٹو : ظہور الحق

بجٹ صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے اس میں غلط بیانی کی گئی موجودہ حالات میں اس سے اچھا بجٹ بنایا ہی نہیں جا سکتا تھا۔

باتیں ایکسپریس فورم میں شریک مختلف طبقہ فکر کے افراد نے کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اتنی کم بڑھی ہیں کہ موجودہ مہنگائی ہیں ان کا زندہ رہنا بھی مشکل ہوجائیگا۔زراعت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے ۔پچھلے سال 400 ارب روپے سرکلرڈیٹ کی مد میں گئے اب پھر یہ 200 ارب ہو چکا ہے حکومت نے اس مد میں کوئی پیسے نہیں رکھے۔

ہمارا بینکنگ سسٹم کسانوں سے ناانصافی کرتا ہے۔ خوراک پر فی کس 3600 روپے خرچ آتا ہے حکومت چار افراد کے خاندان کا 12 ہزار میں بجٹ بنا کر دکھا دے۔

حکومت سرکاری ملازمین کے لئے خودکش بمبار ثابت ہوئی ہے سیکرٹری فنانس نے ملازمین سے جو وعدے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے۔ سرکاری ملازمین لنڈے کے کپڑے پہننے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

بجٹ پر صرف سیاست کی جا رہی ہے اکنامی کھڑی ہو چکی ہے۔ سسٹم میں ٹھہراؤ آگیا ہے حکومت کی سمت بھی درست ہے۔ بجلی کے معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ انڈسٹری پھلے پھولے گی تو نوکریاں بھی ملیں گی۔ درآمدی برآمدی بنک کھلنے سے برآمدات بڑھیں گی۔ شرکاء فورم نے جن خیالات کا اظہار کیا ایکسپریس کے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

خرم منظور وٹو رکن پنجاب اسمبلی (پیپلزپارٹی)

اسحاق ڈار نے اکنامک سروے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے اپنے 90 فیصد ٹارگٹ حاصل کرلئے ہیں جبکہ حقیقت میں یہ بات غلط ہے۔ جی ڈی پی جس کی شرح پچھلے سال 4.4 رکھی گئی تھی پورا نہیں ہوا جبکہ حقیقت میں یہ 3.7 رہا۔

اگر جی ڈی پی میں اضافہ ہوا تو اس کی تفصیل تو بتائیں۔ حکومت نے پچھلے مالی سال میں 700 ارب روپے اپنی سکیورٹی اور طالبان سے مذاکرات پر خرچ کیلئے مذاکرات کی آڑ میں فوج کو بھی مروایا اور اس سے ملک کی اکانومی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ سروس سیکٹر میں گروتھ 4.85 فیصد رکھی گئی لیکن یہ 4.29 فیصد حاصل ہو سکی۔ حکومت کی سب سے بڑی نالائقی زرعی سیکٹر میں نظر آئی زراعت کے لئے 2.88 فیصد کا ٹارگٹ رکھا گیا تھا لیکن یہ 2.12 فیصد تک رہا۔ کاٹن کی پیداوار پچھلے سال 1300 ملین گانٹھ تھی جو اس سال 1200 ملین گانٹھ رہ گئی۔

اس بار بھی حکومت نے بجٹ میں زرعی سیکٹر کو نظر انداز کیا ہے کسانوں کی تنظیمیں دھرنا دے رہی ہیں کہ حکمران بھارت سے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تجارت کر کے کسانوں کا معاشی قتل عام بند کر ے پاکستان میں ٹیوب ویل کی بجلی سے لے کر زراعت میں استعمال ہونے والی ہر شے پر سبسڈی تو کیا ملنی ہے الٹا ٹیکس عائد ہے۔ اس پر بجٹ میں کوئی بات نہیں ہوئی‘ سٹوریج کا کوئی ذکر نہیں یہ کسانوں کی دشمن حکومت ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ افراط زر 7.75 فیصد سے 8.69 فیصد ہوگیا جبکہ حقیقت میں افراط زر 12 فیصد کی مد کو چھو رہا ہے۔

پارلیمنٹ میں اس حوالے سے بھی غلط بیانی کی گئی اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی ہوئی ٹیکس وصولیوں کا ہدف بھی پورا نہیں ہوا اس کا اعتراف وزیر خزانہ نے خود کیا۔ جہاں تک سرکاری ملازمین کا تعلق ہے تو اس کا موازنہ اگر پیپلزپارٹی کی حکومت سے کیا جائے تو اس نے2010ء میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 70 فیصد تک اضافہ کیا تھا اس کے مقابلے میں مہنگائی کے تناسب سے اگر جائزہ لیا جائے تو 10 سے 15 فیصد کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے افراط زر اور تنخواہوں میں اضافہ کوئی مطابقت ہی نہیں رکھتے۔ حکومت سرکاری ملازمین سے دشمنی کر رہی ہے۔

پیپلزپارٹی سرکاری ملازمین کے اصولی مؤقف کی تائید کرتی ہے۔ ہم پنجاب اسمبلی میں سرکاری ملازمین کیلئے آواز اٹھائیں گے اور بھرپور احتجاج کریں گے۔ جہاں تک ٹیکس ٹارگٹ کے پورا نہ ہونے کا تعلق ہے تو جب حکمران خود ہی ٹیکس نہ دیتے ہوں گے تو ٹارگٹ پورا کیسے ہو گا۔ حکمرانوں کی بڑی بڑی انڈسٹریاں ہیں ملک سے باہر جائیدادیں ہیں لیکن ٹیکس نہیں دیتے۔ حکمران اب بجلی اور گیس کے ریٹ مزید بڑھائیں گے آپ دیکھیں اپنے دوستوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے پاور سیکٹر کا 400 ارب کا سرکلر ڈیٹ ایک ہفتے میں ادا کر دیا گیا جو اب پھر 200 ارب تک ہو چکا ہے لیکن بجٹ میں سرکلر ڈیٹ کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔

ارشاد شاکر (جنرل سیکرٹری پنجاب سول اکاؤنٹس ایسوسی ایشن)

سب سے زیادہ ٹیکس سرکاری ملازمین دیتے ہیں جواب میں حکومت انہیں کیا دے رہی ہے۔ تنخواہوں میں صرف دس فیصد اضافہ، جواب میں انشورنس اور دیگر کئی مدات میں ایک ہزار بڑھا کر 6 ہزار کاٹ لیا جائے گا ملازمین کا خون چوسا جا رہا ہے وہ تو ایک سال میں مر جائیں گے۔ سرکاری ملازمین لنڈے کے کپڑے پہننے پر مجبور ہیں سوسائٹی میں بیٹھتے اٹھتے ہیں لیکن اپنے ہی کپڑوں پر شرم محسوس کرتے ہیں۔

پیپلزپارٹی نے تو پھر بھی کچھ خیال کر لیا تھا لیکن یہ حکومت تو وعدہ بھی نہیں کرتی۔ سرکاری ملازمین نے دھرنا دیا تو وقار مسعود احمد خان نے ملازمین کو لالی پاپ دیدیا کہ آپ کو نئے پے سکیل دیں گے لیکن یہ بات صرف ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت کی گئی۔

حکمرانوں کے اپنے اخراجات ہی ختم نہیں ہوتے وہ ملازمین پر کیا توجہ دیگی۔ کے پی کے کابجٹ آئے گا تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد تک اضافہ ہو گا جن کی تنخواہ میں صرف دس فیصد اضافہ ہوا ہے اس کے دل سے دعا کیسے نکلے گی۔ اسحق ڈار نے بجٹ تقریر سے پہلے جو تلاوت کروائی اس کا ترجمہ تھا کہ غریب کو اس کا حق دو لیکن اپنی تقریر میں تو انہوں نے غریب سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا۔

ظفر اقبال کمبوہ (چیئرمین ایپکا پنجاب صدر اے جی پنجاب)

سرکاری ملازمین نے بجٹ سے پہلے بہت شور مچایا کہ اس مہنگائی میں موجودہ تنخواہ میں زندہ رہنا بہت مشکل ہے لیکن حکمران گونگے اور بہرے بن چکے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں صرف دس فیصد اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے تنخواہوں میں اضافہ سال بعد ہوتا ہے لیکن مہنگائی میں ہر مہینے اضافہ کر دیا جاتا ہے حکومت سرکاری ملازمین کے لئے خود کش بمبار بن چکی ہے۔

28 مئی کو سرکاری ملازمین کے وفد سے سیکرٹری فنانس نے ملاقات کی تنخواہوں میں اضافے کے مطالبے پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر تنخواہ میں ایک فیصد اضافہ کریں تو حکومت پر چار راب کا بوجھ بڑھتا ہے میں کہتا ہوں کہ اگر مرغی کے ریٹ میں ایک روپیہ فی کلو اضافہ ہو جائے تو مرغی کے کاروبار پر چھائے ہوئے حکمران طبقے کو 110 ارب روپے مل جاتے ہیں۔ غریب کہاں جائیں پہلے ہی غریب غربت کی وجہ سے اپنے بچے بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اب وہ بچے بیچیں گے نہیں انہیں مارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

بجٹ صرف الفاظ کا گورکھ دھندا ہے دس فیصد تنخواہ بڑھنے کا مطلب ہے کہ صرف بنیادی تنخواہ پر دس فیصد اضافہ ہو گا اگر کسی کی تنخواہ 20 ہزار ہے تو اس کی بنیادی تنخواہ قریباً دس ہزار بنتی ہے باقی الاؤنس ہیں دس ہزار پر دس فیصد کا مطلب ہے اس کی تنخواہ میں صرف ایک ہزار روپے اضافہ ہوگا۔

اس کے مقابلے میں کسی بھی چیز کو دیکھ لیں وہ کئی سو فیصد مہنگی ہو چکی ہے دس فیصد اضافہ کرنے والوں کو غریبوں کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں حکمران صرف چند بڑوں کے مسلط کردہ لوگ ہیں یہ عوام کے نمائندے نہیں۔ دوسری طرف آپ پنشن دیکھ لیں حکومت نے بڑے جوش سے اعلان کیا ہے کہ کم از کم پنشن 6 ہزار روپے ہو گی 6 ہزار روپے میں کوئی گذارا کیسے کرے گا۔

وزیراعظم یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ فوج اور جرنیل میرے ساتھ ہیں لیکن حکومت کے جو اقدامات ہیں عوام ان کے ساتھ نہیں رہیں گے موجودہ حکمرانوں نے وائٹ کالر افراد کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی ہیں آپ ڈائریکٹ ٹیکس لگائیں یا ان ڈائریکٹ اس کا بوجھ عوام پر ہی پڑتا ہے عوام کا زندگی گذارنا مشکل ہو چکا ہے آپ کاریں سستی کر رہے غریب تو روٹی اور نوکری کا طلبگار ہے روٹی آپ نے مشکل بنادی نوکریوں پرپابندی لگا دی اس سے بہتر تو پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جس نے 50 سے لے کر 70 فیصد تک تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا۔

بے نظیر نے اعلان کیا تھا کہ کم ازکم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر مقرر کریں گے جب وہ حکومت میں آئیں اور ملازمین نے ان کا وعدہ یاد دلایا تو نہوں نے کہا کہ پانچ سال میں بتدریج تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہو جائے گی اس بات کو آج 20 سال ہوگئے ہیں لیکن معاملات وہیں کھڑے ہیں۔

جمشید چیمہ زرعی ماہر(رہنما تحریک انصاف)

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے اپنی روایت کو برقرار رکھا اور پارلیمنٹ میں غلط ڈیٹا پیش کیا۔ حکومت اور آئی ایم ایف میں طے ہوا تھا کہ جی ڈی پی کی شرح 3.3 فیصد ہے جو اچانک 4.4 ہوگئی۔ لارج سکیل مینو فیکچرنگ کا حصہ اس میں سے 5.3 فیصد تھا جو فروری مارچ اور اپریل میں کم ہو کر 4.27 ہو گیا جبکہ باقی 9 مہینے پر ریٹ 3.5 فیصد تھا۔

اس میں کنسٹرکشن سیکٹر کا حصہ 11.3 فیصد بتایا گیا جبکہ اس میں سیمنٹ سیکٹر کا حصہ 4.2 تھا تو پھر کنسٹرکشن کی گروتھ اتنی کیسے بڑھ گئی۔ بنک کہتے ہیں ان کا کاروبار 15 فیصد کم ہوا ۔ انڈسٹری پیچھے چلی گئی۔ ٹیکس ریونیو ٹارگٹ پورے نہیں ہوئے، ایکسپورٹ کم ہو گئیں بیرونی سرمایہ کاری بھی کم ہوئی‘ سٹاک مارکیٹ میں بھی بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔

حکومت نے جو 11 بڑے ٹارگٹ سیٹ کئے تھے ان میں سے9 میں ٹارگٹ پورے نہیں ہوئے سٹاک مارکیٹ میں 2006-2007ء میں 3289 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جو پچھلے سال 110 ملین ڈالر تھی کیونکہ غیر ملکی سرمایہ کار کہتے ہیں انہیں پاکستان کی سٹاک مارکیٹ پر اعتماد نہیں رہا۔

اسی طرح نجی سرمایہ کاری میں 1.6 فیصد کمی ہوئی، مینو فیکچرنگ میں 2.6 فیصد کمی ہوئی۔ پارو سیکٹر میں 480 بلیں روپے لگائے گئے لیکن بجلی کی پیداوار میں صرف 4 فیصد اضافہ ہو ا لیکن اس کی قیمت 74 فیصد بڑھ گئی۔ سرمایہ کاری پچھلے سال کی نسبت9.1 فیصد کم ہوئی۔

پاورسیکٹر میں جو سرمایہ کاری ہوئی اسے دیکھیں تو نندی پور پاور پراجیکٹ سے جو بجلی حاصل ہوگی وہ 24 روپے فی یونٹ پڑے گی دوسری طرف ہمارے پاس پہلے سے جو پاور پراجیکٹ موجود ہیں انکی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 22 ہزار میگاواٹ ہے لیکن وہ 10 ہزار میگاواٹ پیدا کر رہے ہیں۔ زراعت کی گروتھ کا ٹارگٹ 3.3 فیصد رکھا پچھلے سال بارشوں کی وجہ سے پانی زیادہ تھا پھر گروتھ کم ہو کر 2.9 فیصد رہی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں زراعت کی گروتھ 3.6 فیصد تھی۔ بینک بھی زرعی شعبے سے ناانصافی کر رہے ہیں۔ زرعی شعبے کو کم قرضے دیئے جاتے ہیں۔

زرعی گروتھ 2.5 فیصد ہے جبکہ آبادی کا 44 فیصد حصہ زراعت سے وابستہ ہے اس طرح ان کی آمدنی ملک کی اوسط آمدنی سے آدھی ہوئی جبکہ 50 فیصد آبادی غربت کے خط سے نیچے زندگی گزار رہی ہے کسانوں کی آمدنی ان سے بھی آدھی ہے۔ پوری دنیا میں زراعت کو فوڈ سکیورٹی کے طور پر لیا جاتا ہے یہ بزنس نہیں ہے۔ اس لئے زرعی شعبے کو مکمل سہولتیں اور آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ زراعت کو ٹیکسوں کی نہیں سبسڈی اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔

حیرت انگیز بات ہے کہ بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے جو آسانی فراہم کی گئی ہے وہ ٹنل فارمنگ میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی شیٹ ہے جس پر ڈیوٹی معاف ہوئی ہے پاکستان میں ٹنل فارمنگ کرنے والے چھوٹے چھوٹے رقبے والے کسان ہیں جو لنڈے سے استعمال شدہ شیٹس خرید کر استعمال کرتے ہیں ان کا یہ مسئلہ ہی نہیں ہے ٹنل فارمنگ ٹوٹل فارمنگ کا .06 فیصد ہے جو کچھ کیا گیا وہ کسی کی ڈیمانڈ ہی نہیں تھی دوسری طرف ایک اور فیصلہ سامنے آیا کہ جن کی دس سے زیادہ بھینسیں ہیں ان کی انشورنس کی جائے گی۔

زیادہ تر کسان 12 ایکٹریا اس سے کم زمین والے ہیں وہ دس بھینسیں بھی نہیں رکھ سکتے یعنی غریب کسان کو اس فیصلے کا بھی کچھ فائدہ نہ ہوا ٹریکٹر پر ڈیوٹی کم کر دی گی جب گرین ٹریکٹر سکیم آئی تو 80 ہزار ٹریکٹر سالانہ بکتا تھا جس کی تعداد اب 16 ہزار رہ گئی تھی یہ اقدام صرف ٹریکٹر تیار کرنے والوں کو فا ئدہ پہنچانے کے لئے کیا گیا جبکہ زراعت میں استعمال ہونے والی‘ کھاد‘ بجلی‘ پانی‘ بیج اور دیگر مشینری پر نہ کوئی سبڈی ملی نہ ڈیوٹی کم ہوئی اسی وجہ سے دیہات میں رہنے والے 60 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

موجودہ مہنگائی کو سامنے رکھیں تو ایک آدمی کو زندہ رہنے کے لئے جس خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اس پر 3600 روپے فی کس خرچ آتا ہے جس گھر کے 6 فرد ہوں ان کی خوراک پر ہی مہینے میں 20 ہزار لگ جاتے ہیں۔ تین مرلے کے گھر پر پانی کابل پہلے 230 روپے آتاہے جو 800 روپے ہو گیا‘ گیس کا بل 300 تھا۔ جواب 1600 تک ہو چکا ہے بجلی کئی گنا مہنگی ہو چکی ہے اور اس پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 10 فیصد اضافہ ہوا ہے غریب آدمی کے لئے تو زندہ رہنا بھی مشکل ہوجائیگا۔

پاکستان اور امریکہ میں کھانے پینے کی اشیاء کا ریٹ قریباً برابر ہے لیکن وہاں معاوضہ 9 ڈالر فی گھنٹہ ہے اور ہمارے ہاں 2 ڈالر پورے دن کا معاوضہ ہے حکومت نے عوام کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ حکمران کہتے ہیں کہ جو دیناہے وہ ہمیں دو اور جو لینا ہے وہ اللہ سے لو۔ حکومت نے کم ازکم تنخواہ 12 ہزار تو مقرر کر دی یہ سرکاری اداروں میں تومل جائے گی۔ پرائیویٹ سیکٹر میں شائد بڑے ادارے بھی یہ تنخواہ دیدیں لیکن چھوٹے ادارے اتنے پیسے نہیں دیتے۔ بڑے بڑے پرائیویٹ سکولوں میں آپ جائزہ لیں تو ایم اے پاس ٹیچر کو بھی پانچ یا چھ ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ اب آپ بتائیں وہ اتنے پیسوں میں گذارا کیسے کرے۔

محمد علی میو (سابق صدر لاہور چیمبر، سابق مشیر وزیراعلیٰ پنجاب صدر مسلم لیگ ن ٹریڈرز ونگ پنجاب)

بجٹ اکنامک مسئلہ ہے معاشی معاملات کو اسی کی عینک سے دیکھنا چاہئے لیکن اعداد و شمار پر یک طرفہ تنقید اور سیاست پر زور دیا جا رہا ہے ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھیں پھر مظاہرے شروع ہو گئے تو تنخواہیں بڑھا دی گئیں بجٹ پر جب بھی حکومت کے مخالفین بات کرتے ہیں تو صرف ذاتی کمنٹس دیتے ہیں حقوق کی بات کم کرتے ہیں۔

سیاست چمکانے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔ ماضی میں آج تک کبھی کسی بھی حکومت نے بجٹ کے جو ٹارگٹ دیئے ہوتے ہیں وہ پورے نہیں ہوئے کبھی پی ایس ڈی کا پورا استعمال نہیں ہوا۔ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6 ارب ڈالر سے 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔

ریونیو کو لیکشن 16 فیصد بڑھ گئی ہے 6 سال سے جو اکانومی نیچے کی طرف جا رہی تھی وہ کھڑی ہو گئی ہے۔ بیروزگاری کم ہوئی ہے‘ سسٹم میں ٹھہراؤ آ گیا ہے سرمایہ کاروں کو اعتماد دیا گیا ہے یورو بانڈ اور 3 جی لائسنس اس کی مثالیں ہیں جس سے اربوں ڈالر ملے۔ میگا لیول پر اگر جائزہ لیں تو موجودہ حکومت کی ڈائریکشن درست ہے اور ملک ترقی کی طرف جا رہا ہے۔ امن و امان اور بجلی کے معاملات دیکھیں تو ان میں بہتری کے آثار پیدا ہو چکے ہیں منصوبے شروع ہو گئے ہیں لیکن پاور پراجیکٹس بننے میں وقت لگتا ہے سرمایہ کاری کو دیکھ لیں پچھلے سال نجی شعبے نے 98 بلین کی سرمایہ کاری کی اس سال یہ سرمایہ کاری 290 بلین کی ہوئی ہے۔

انڈسٹری میں 5.1 فیصد کی گروتھ ہوئی ہے ریلیف سب کو ملا ہے حکومت نے اپنے وسائل کو بھی دیکھنا ہوتا ہے اور اسی میں سارے اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں اگر کسی کو کسی معاملے پر تحفظات ہیں تو وہ دلیل سے بات کرے جہاں تک نوکریوں پر پابندی کا تعلق ہے تو مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور سپلائی کے مطابق نکلتی ہیں۔ لوگوں کو نوکریاں دینے کی ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں پرائیویٹ سیکٹر میں سرکاری شعبے کی نسبت زیادہ نوکریاں ہیں حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر میں لوگوں کو کھپانے کے لئے ٹیکسٹائل ٹریننگ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

انڈسٹری چلے گی تو نوکریاں بھی ملیں گی بجٹ میں سرکل چلے گا موجودہ حالات میں اس سے اچھا بجٹ بنانا ممکن نہیں تھا۔ ا میروں پر زیادہ ٹیکس لگایا گیا ہے، ہوائی سفر پر ٹیکس لگا ہے ان پر بھی ٹیکس لگا ہے جو بالکل ٹیکس نہیں دیتے تھے۔

اب وہ بھی دیں گے بینک سے رقم نکلوانے پر انہیں زیادہ ٹیکس دینا پڑے گا گاڑی کی رجسٹریشن پر بھی وہ زیادہ پیسے دیں گے اس سے ریونیو بڑھے گا۔ درآمدی برآمدی بینک کے قیام کے فیصلے سے دوسرے ملکوں سے کاروبار میں اضافہ ہوگا حکومت نے بجٹ میں تاجروں کے زیادہ تر مطالبات تسلیم کر لئے گئے ہیں۔ انڈسٹری کی بحالی اور ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ دی جائے گی حکومت امن و امان کی بحالی اور بجلی بحران ختم کرنے کے لئے دن رات کوشش کر رہی ہے قوم کو حکومت پر اعتماد ہے اگر کسی نے حکومت کے ساتھ سیاست کرنے کی کوشش کی تو تاجر برادری اس کے خلاف ڈٹ جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔