بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ

اینکر : جناب چمچ الملک چمچ صاحب پروگرام میں آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے عرض کریں گے کہ پہلے اپنا تعارف کیجیے۔

barq@email.com

آپ کو یہ سن کر خوشی ہو گی کہ چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' نے ناظرین کی درخواست پر، وقت کے تقاضے پر اور پبلک کی ڈیمانڈ پر مشہور اینکر پرسن جناب چمچ الملک چمچ کو اپنی ٹیم میں شامل کر لیا ہے اور جناب چمچ الملک جانے مانے اور پہچانے اینکر پرسن ہیں، اس کے کمال فن کا اندازہ اس سے لگایئے کہ موصوف گذشتہ دس سال سے دس چینلوں میں دس ٹاک شوز کر چکے ہیں لیکن مجال ہے کہ آج تک کوئی یہ پتہ لگا پایا ہو کہ موصوف نے کیا کہا، کیا سنا اور کیا سنایا ہے، ایک گھنٹے کے ٹاک شو میں اٹھارہ کلو الفاظ بول کر کسی کو یہ پتہ نہیں لگنے دیا کہ بولے تو کیا بولے، ان کا مشہور و معروف ٹاک شو وہ تھا جو نائن الیون کہلایا جا سکتا ہے، نام تو اس کا ''ایچک دانہ بیچک دانہ'' تھا لیکن اس کا ٹائٹل سانگ تھا۔

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

اس میں انھوں نے ایک پروگرام 7/24 کو موضوع بنا کر بھی کیا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے ریاضی دان، حساب دان اور کتاب دان بٹھائے ہوئے تھے، سارے پروگرام میں حسب معمول حسب روایت اور حسب 7/24 کوئی یہ تو نہیں سمجھا تھا کہ کیا کہا جارہا ہے لیکن یہ پتہ ضرور لگا کہ 9/11 الیون کے بعد یہ فیشن چل نکلا ہے کہ نام جتنا بے معنی ہو گا پاپولریٹی اور پی آر اتنی ہی زیادہ ہو گی، خیر ان کے ساتھ پہلا ''چونچ بہ چونچ'' سنئے گا تو پتہ چلے گا کہ بے ''معنی معنویت'' کیا ہوتی ہے، تو چلیے اسٹارٹ کرتے ہیں باقی دو بدبختوں کا تو نام بھی نہ لیجیے کہ یہ اپنے ناموں سے زیادہ کاموں سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔

اینکر : جناب چمچ الملک چمچ صاحب پروگرام میں آپ کو خوش آمدید کہتے ہوئے عرض کریں گے کہ پہلے اپنا تعارف کیجیے۔

چمچ : نام تو میرا آپ نے لے لیا ہمارا تعلق خشوگی خاندان سے ہے خشوگی بھی چمچے ہی کو کہتے ہیں، تعلق کفگیر آباء کے ایک بہت بڑے شہر سے ہے

چشم : پہلے اپنی ولدیت بتا دیجیے

چمچ : والد کا نام چمچ الزمان، دادا کا نام چمچ الحق، پردادا کا نام چمچ العالم

علامہ : بس بس اتنے چمچے بہت ہیں۔اینکر : اینکرنگ سے پہلے آپ کا تعلق کس پیشے سے تھا۔چمچ : کمال کرتے تھے ہم اور پاجامہ ادھیڑ کر رومال کرتے تھے۔

اینکر : آج کس موضوع پر بات کریں گے۔چمچ آج تو ایک نہایت ہی مشہور و معروف کہاوت پر پروگرام کرنے کا ارادہ ہے۔چشم : کون سی کہاوت ؟چمچ : آج کل مملکت ناپرسان میں سب سے زیادہ بیسٹ سیلر اور زبان زدعام کہاوت ہے ''بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ''

اینکر : ذرا تفصیل میں غوطئے کہ یہ عبداللہ کون تھا اور شادی کس کی تھی۔چمچ : شادی ایک قصائی کی تھی اور دہلی کے محلے چوہے ماراں میں تھی ۔علامہ : کیا دلی میں محلہ چوہے ماراں بھی ہے، میں نے تو صرف محلہ بلی ماراں کا سنا ہے۔چمچ : غلط سنا ہے وہ بلی ماراں نہیں بلکہ بلی (BALI) کا محلہ ہے جہاں دریائے جمنا میں بلی مار کر کشتی چلانے والے ملاح رہتے تھے۔

اینکر : بات کا اسٹیرنگ مت گھمایئے، شادی کی تفصیل پر آیئے۔چمچ : جس قصائی کی شادی تھی وہ پہلے کہیں اور رہتا تھا اور قصائی گیری کرتا تھا، اس سے پہلے کہیں اور تھا رسہ گیری کرتا تھا اور اس سے پہلے بھی کہیں اور تھا اور ''چائے گیری'کرتا تھا۔

چشم : مطلب یہ کہ پورا گیری تھا۔علامہ : اور اب ؟

چمچ : اب دلی کے محلہ چوہے ماراں میں آکر وہ پردھان بن گیا تھا اور شادی رچائی

اینکر : اور یہ عبداللہ جو بیگانی شادی میں دیوانہ ہوا۔

چمچ : ویسے تو بڑا شریف آدمی تھا لیکن ڈھول کی آواز سن کر بے قابو ہو جاتا تھا اور وہیں آن دی اسپاٹ بھنگڑا ڈال دیتا تھا بلکہ گاتا بھی تھا۔آؤجی آئو جی بھنگڑا ساڈے نال پاؤ جی،

علامہ : یہ پورے کا پورا چشم گل چشم کے دادا پر گیا تھا۔

چشم : خبردار جومیرے دادا کا نام لیا ورنہ میں تمہارے باپ دادا، دادی، نانا، نانی ۔۔۔ سب کا پول کھول دوں گا۔

چمچ : یہ تو بڑی اچھی بات ہے ایسا کرو تم دونوں ایک دوسرے کے خاندانی پول کھول دو۔

علامہ : اس کا دادا جو تھا ڈھول کی آواز پر دیوانہ ہو جاتا تھا۔

چشم : اور اس کا دادا حلوہ پوری کا نام سن کر پاگل ہو جاتا تھااس لیے اس کا نام بھی ''ملا حلوہ پوری'' پڑ گیا۔

علامہ : اس کا دادا ڈھول کی آواز سن کر اگر کھانا بھی کھا رہا ہوتا تھا تو وہیں سے تھرکنے لگتا تھا اور تھرکتے تھرکتے دوڑ کر بارات میں پہنچ جاتا تھا، ایک دن ۔۔۔۔

چشم : خبردار جو اس دن کا قصہ سنایا۔


چمچ : آپ جاری رکھئے۔

علامہ : بیٹوں نے اس کی اس عادت سے تنگ آکر اس سے کہا کہ ہم تجھے پانچ روپے روز دیں گے لیکن خدا کے لیے اب اس عادت سے باز آجائو۔

اینکر : پھر کیا ہوا۔۔۔۔

چمچ : بیٹوں نے اسی وقت پانچ روپے اکٹھا کر کے پچیس روپے دیے، لیکن ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گلی سے بارات گزرنے لگی اور ایک توبہ شکن قسم کا ڈھول بجنے لگا۔

اینکر : کڑ کڑاکا ، کڑ کڑاکا، کڑ کڑ کڑ

علامہ : اس کا دادا تو تھوڑی دیر تک ضبط کیے رہا لیکن پھر اس کے پیر بے قابو ہو گئے اس کے بعد گھٹنے اور پھر اچانک اس نے پچیس روپے نکالے بیٹوں کے منہ پر مارے اور یہ کہتے ہوئے کود گیا اور ناچتے ناچتے نکل گیا، کہ اس ڈھول کو سن کر تمہارا باپ بھی نہیں رہ پائے گا۔چشم : اور اس کا باپ

اینکر : نہیں بس اصل موضوع پر آتے ہیں، چمچ صاحب وہ عبداللہ؟۔چمچ : عبداللہ دلی سے دور رہتا تھا لیکن ڈھول کی آواز اس کے کان پڑ گئی ایک تو دور کے ڈھول ویسے بھی سہانے ہوتے ہیں اور عبداللہ کی کم زوری بھی تھی۔اینکر : اچھا تو ڈھول کی آواز اس نے سن لی۔چمچ : صرف سنی نہیں بل کہ ہاتھ پیر بھی بے قابو ہو گئے اور یہ کہتے ہوئے دوڑ پڑا ۔۔۔ کہ ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں ۔۔۔

اینکر : سب کچھ چھوڑ کر

چمچ : جی ہاں ۔۔۔ اور وہ بھی بن بلائے ۔۔۔

چشم : ارے چھوڑ چھاڑ کے سلیم کی گلی...انار کلی ڈسکو چلی

اینکر : تم چپ رہو اچھا پھر ؟

چمچ : پھر، پھر ہو گیا اور ناچتا گاتا ہوا سیدھا بارات میں شامل ہو گیا، ایسا ناچا ایسا ناچا ۔۔۔ کہ لوگوں کو اس پر دولہے کا گمان ہو گیا

اینکر : داد تو بہت ملی ہو گی

چمچ : داد کا تو پتہ نہیں ۔۔۔ داغ ضرور مل گیا

لے گئے خاک میں ہم داغ تمنائے نشاط

تو ہو اورآپ بصد رنگ گلستان ہونا

اور داغ بھی وہ جو کسی بھی ڈیٹرجنٹ سے نہ نکلے

اینکر : مطلب یہ کہ کچھ بھی نہ دیا

چمچ : کچھ تو دیا لیکن ساتھ ہی جرمانہ بھی بھرنا پڑا

اینکر : وہ کیسے؟

چمچ : وہ یوں کہ شادی والوں کو یاد آیا کہ اس شخص نے ایک مرتبہ کھایا پیا تو کچھ نہ تھا لیکن ایک گلاس توڑا تھا

اینکر : اچھا گلاس توڑا تھا وہ بھی کچھ کھائے پیئے بغیر

چمچ : جی ہاں اور اس کے بارہ آنے اس سے وصول کیے جائیں، تبھی سے یہ کہاوت مشہور ہو گئی کہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ، ایسے من موجی کو مشکل ہے سمجھانا۔
Load Next Story