ٹوٹی ہوئی بجلی ٹوٹے ہوئے وعدے
وزیراعظم نواز شریف نے برطانیہ کے پانچویں دورے کے بعد پاکستان واپس آتے ہی ایک انٹرویو میں کہا تھا
وزیراعظم نواز شریف نے برطانیہ کے پانچویں دورے کے بعد پاکستان واپس آتے ہی ایک انٹرویو میں کہا تھا: ''بجلی بحران کا صحیح اندازہ ہوتا تو (مسلم لیگ نون کے) منشور میں وعدے نہ کرتے۔'' گذشتہ ماہ وزیراعظم صاحب نے ایک انٹرویو میں حکم دیا کہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ چھ یا سات گھنٹوں تک کیا جائے۔ مگر کیسے؟ طریقہ یہ بتایا کہ سی این جی سیکٹر کو گیس کی ترسیل کم کر دی جائے۔ ادھر حقیقت یہ ہے کہ سی این جی گیس اسٹیشنوں کوپہلے ہی گیس کی ترسیل بہت کم ہے۔
گرمی کی شدت اور لوڈ شیڈنگ میں اضافے کے ساتھ ہی حکومت کے خلاف عوامی غیض و غضب میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی ٹوٹ ٹوٹ کر بدترین لوڈ شیڈنگ کی شکل میں عوام کے ٹوٹتے اعصاب کو مزید توڑنے کا باعث بن رہی ہے۔ بجلی فراہم کرنے کے سارے وعدے ٹوٹتے جارہے ہیں۔ بھارت سے بجلی لی جاسکی ہے نہ ایران سے۔ نئے بجٹ میں بھی بجلی کی فراہمی کے لیے کوئی خاص رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔
نئے ڈیم بنانے کے جو وعدے کیے گئے تھے، ان میں بھی کھنڈت پڑتی جارہی ہے۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر نے چٹاکورا جواب دے دیا ہے کہ مجوزہ دیامر بھاشا ڈیم بنانے کے لیے ہم پاکستان کو ڈالر نہیں دے سکتے، جائیے پہلے بھارت سے اس ڈیم کے حوالے سے این او سی لے کر آئیے، پھر دیکھیں گے۔ اس کا یہ سرکاری جواب دیا جارہا ہے کہ ورلڈ بینک نے تو دیامر بھاشا ڈیم کے لیے کوئی وعدہ سرے سے کیا ہی نہیں تھا تو انکار کیسا؟
جو لوگ گذشتہ حکومت میں مینارِ پاکستان کے سائے تلے، لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہاتھوں سے پنکھا جھلایا کرتے تھے، عوام اب ان سے پوچھ رہے ہیں یہی منظر اب کیوں نہیں دکھایا جارہا؟ بجلی کی عدم دستیابی کا عالم بھی وہی ہے، گرمی بھی ویسی ہی ہے اور بازار میں دستی پنکھے بھی بہت ہیں۔
سولہویں صدی عیسوی کے آغاز میں برطانوی پارلیمنٹ کے بعض ارکان نے ملکہ الزبتھ (اول) کے طرزِ حکمرانی پر شدید تنقید کرنا شروع کی تو ایک روز ملکہ تنگ آکر پارلیمنٹ میں آگئیں اور اپنے تاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگیں: ''اس تاج کو دیکھ کر رشک کرنا اور اس پر تنقیدی نگاہیں ڈالنا تو آسان ہے، مگر اس کا بوجھ اٹھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔'' زرداری، گیلانی اور راجہ کی حکومت کے خلاف آوازیں کسنے اور اس دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے بارے میں سینہ کوبی کرنا خاصا آسان تھا مگر اب بعض لوگوں نے خود حکمرانی کا تاج پہنا ہے تو کہنے لگے ہیں توانائی کے بحران کا صحیح اندازہ ہوتا تو منشور میں وعدے نہ کرتے۔
گذشتہ ہفتے خبر آئی کہ پاکستان کے چار اہم ترین پاور ہائوسز اچانک بند ہوگئے۔ ان کی وجہ سے بھی لوڈ شیڈنگ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جان کنی بڑھ رہی ہے، سانس اکھڑ کر گلے میں آپھنسے ہیں اور صنعتوں کے پہیے مزید منجمد۔ یعنی مزید بے روزگاری۔ بجلی کے حوالے سے گردشی قرضہ دوبارہ 330 ارب ہوگیا ہے۔ اس حکومت نے دس مہینوں میں عالمی مالی اداروں سے دس ارب ڈالر کے جو قرضے لیے ہیں، وہ ان 330ارب روپے کے علاوہ ہیں۔ اوپر سے وزیرِ بجلی اعلان کررہے ہیں کہ عوام کو اگلے چھ ماہ مزید لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا ہوگی۔ یہ اعلان ہے یا عوام کے لیے حکومتی سنائونی؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمیابی کا یہی حال رہا تو پاکستان کو سالانہ پانچ سو ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑے گا۔
چند روز قبل ہم نے انھی صفحات پر ''بجلی کا سیاپا'' کے زیرِ عنوان ایک کالم لکھا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے ایک علاقے میں برسہا برس سے بجلی کے میٹر ہی نہیں لگائے گئے، اس لیے بھی بجلی چوری ہورہی ہے۔ خیبر پختون خوا کے ایک مقتدر سیاستدان نے ''واپڈا'' پر تبریٰ کرتے ہوئے کہا تھا: ''یہ لوگ ہمارے میٹر ہی نہیں لگاتے، ہم کیا کریں؟ ہمیں بجلی تو استعمال کرنی ہی ہے۔'' اب رازدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ بجلی کے میٹر لگانے کا تو محض سیاسی بیان تھا مگر اب اس مخصوص علاقے میں ''اکابرین'' نے طے کیا ہے کہ میٹر تو ہم نہیں لگنے دیں گے، البتہ ہر ماہ باقاعدگی سے پانچ سو روپے نقد سکّہ رائج الوقت سرکار کے خزانے میں جمع کروا دیا کریں گے۔ چلو پانچ سوہی سہی۔ ہوسکتا ہے ان قطروں سے ہی وہ دریا بن جائے جس سے حکومت بجلی بنانے والوں کے تین سو تیس ارب روپے ''آسانی'' سے ادا کرنے کے قابل ہوسکے۔
''بجلی کا سیاپا'' کے زیرِ عنوان لکھے گئے ہمارے کالم کے ردِ عمل میں بہت سے قارئین نے فون اور ای میلز کے ذریعے بجلی نہ دینے والوں کے خلاف سیاپا بھی کیا ہے اور سینہ کوبی کا مظاہرہ بھی لیکن ہم بوجوہ حکومت کے بارے میں ان کے ارسال کردہ ''خیالات'' مارے شرم کے لکھنے سے قاصر ہیں۔ مختصراً عرض ہے کہ بجلی کی فراہمی کے وعدے کرنے والوں کے بارے میں عوامی جذبات متلاطم ہورہے ہیں۔
جبیل (سعودی عرب) سے ایک قاری جناب محمد حفیظ الرحمن، جو وہاں رائل کمیشن میں الیکٹرسٹی اسپیشلسٹ ہیں اور ماضی میں ''واپڈا'' اور ''پیپکو'' کے ڈپٹی ڈائریکٹر بھی رہے، نے اپنی ای میل میں لکھا ہے کہ مَیں نے کئی بار پاکستان میں بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لیے وزیربجلی کو کئی تجاویز لکھ کر بھیجیں، کسی ایک کا بھی جواب نہ دیا جاسکا۔ حفیظ صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ ''واپڈا'' کے ملازمین سے مفت بجلی کے استعمال کی سہولت واپس لینا چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ موجودہ حکومت تو اتنی کمزور ہے کہ وہ واپڈا کے ملازمین کومفت بجلی کی یہ سہولت واپس لینے کی جرأت ہی نہیں کرسکتی۔
ویسے بھارت میں بھی بجلی کی فراہمی کا حال کچھ اچھا نہیں ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی اسی بنیاد پر احتجاج کرتے ہوئے بھارت کے سابق وزیرخزانہ یشونت سنہا کو حوالات میں کئی راتیں گزارنا پڑی ہیں۔ ان کا ''جرم'' یہ تھا کہ بار بار کی لوڈ شیڈنگ سے تنگ آکر انھوں نے اپنے تین سو ساتھیوں سمیت حکمرانوں کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور بجلی کے بِل نہ دینے کا بھی اعلان کردیا۔ اسی ''جرمِ بغاوت'' میں انھیں اندر کردیا گیا۔