یقین سے

شہلا اعجاز  اتوار 3 مارچ 2024

وہ بہت حیران سا پوچھ رہا تھا، کچھ اضطرابی سی کیفیت بھی تھی، اسے محسوس ہوا تھا کہ جیسے چھ ملین ڈالرز ہوں لیکن جب اسے بتایا گیا کہ چھ ملین ڈالرز نہیں بلکہ چھ بلین کی بات ہے تو وہ حیرانگی اور اضطرابی کیفیت کچھ گھبراہٹ میں بدل گئی تھی۔

’’میں سخت حیران ہوں چھ بلین۔۔۔۔ ہالینڈ میں ایک کمپنی اسٹالون کا پچھلا سالانہ منافع 220 بلین تھا، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ پاکستان اتنے کم پیسوں کے لیے بیگ کر رہا ہے۔ میں نیوز میں دیکھ رہا تھا تو محسوس ہوا کہ شاید مجھے ہی سننے میں غلطی ہوئی ہو۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں کئی اور ایسی کمپنیوں کے نام گنے تھے۔ یہ اس کے دل کی آواز تھی اور بے یقینی کی سی حالت میں اپنے ملک کے لیے نیک تمناؤں کا خواہاں تھا۔

’’ کیا پاکستان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے پر انحصارکر سکے۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پاکستان کے پاس ایسے منرلز (معدنیات) بھی نہیں ہیں ورنہ آج دنیا بھر میں کنٹریز منرلز کی بدولت کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں۔‘‘

وہ کچھ دیسی کچھ بدیسی سے انداز میں پاکستان کی کمیاب منرلز کے بارے میں گفتگو کر رہا تھا، دراصل بیرون ملک اس نے اپنی کمائی کی دھن میں پاکستان کے بارے میں نہ ہی اتنا پڑھا تھا اور نہ ہی اس کی اتنی معلومات تھیں اور پھر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔

’’ نہیں نہیں، یہ جھوٹ ہے، بالکل جھوٹ ہے۔ ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے پاس کاپر اور گولڈ کی اتنی مقدار ہو۔ نہیں، نہیں ایک ایسا ملک جس کے پاس سونے کی کانیں ہوں، مائنز۔۔۔۔ جانتے بھی ہو تم گولڈ مائنز۔۔۔۔ سونے کی کانوں کے بارے میں بات کر رہے ہو۔ یار! کیا کہانی سنا رہے ہو۔ لوہے، سونے اور تانبے کا را میٹریل۔

اندازاً چھ ہزار بلین ڈالرز۔۔۔ نہیں نہیں تم تو کسی فیری ٹیل کی بات کر رہے ہو، جہاں سونے چاندی کے انبار لگے ہوں اور شہزادہ اور اس کی پبلک اس کے کنارے آنسو بہا رہے ہوں کیوں کہ کسی جادوگر نے اس خزانے پر ایسا جادو کر رکھا ہو کہ شہزادہ اور اس کی رعایا ایک اتنے بڑے خزانے کے باوجود غریب تھی اور جادو کی وجہ سے اس خزانے کو استعمال نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ہاہاہا ! ‘‘

یہ گفتگو سات سمندر پار ایک ایسے نوجوان کی ہے جو پیٹ کی خاطر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر چلا گیا تھا لیکن سات سمندر پار بھی پاکستان کی حالیہ صورت حال اور آئی ایم ایف اور دیگر قرضوں کی کہانیاں دنیا بھر کے نیوز چینلز پر تماشے کی طرح چلاتے اذیت میں مبتلا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ جس مملکت قرارداد میں وہ پیدا ہوا تھا وہ خطہ ایک منفرد سیاسی ومعاشرتی حوالے سے تو ہے ہی لیکن قدرتی ذخائر سے بھی مالا مال ہے۔ ایک جانب قدرتی گیس کے ذخائر تو دوسری جانب کوئلے کے، ایک طرف نمک کے ذخائر تو دوسری جانب سنگ مر مر، خام لوہا، کرومائٹ، تانبے اور سونے کے۔

ہم پاکستان کے معدنی اور غیر معدنی ذخائر کی بات کرتے بکھر بکھر سے جاتے ہیں، شاید ایسا ہی ہے کہ ایک ایسا ایٹمی طاقت رکھنے والا ملک وہ قدرتی قیمتی ذخائر سے مالا مال ہے لیکن ملک کا بادشاہ اور اس کی رعایا اس خزانے کے پاس کھڑی نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہی ہے، قسمت کی پری نے تو چھڑی گھما کر سچ مچ لوہے، چاندی اور سونے کے انبار لگا دیے ہیں لیکن ہم ابھی تک اس جادوگری کی قید سے فرار نہیں حاصل کرسکے جس کے پاس وہ جنتر منتر ہے، آخرکب ایسا ہوگا کہ ہم اپنے معدنی ذخائر کو اپنے ملک کے مفاد میں استعمال کرسکیں گے۔

ایک طویل عرصے سے سنتے آئے تھے کہ پاکستان کے پاس گیس کے فلاں فلاں ذخائر تھے اور ان میں پھر وہی فیئرٹیل کی مانند پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا گیا۔ پہلے تو حقیقت میں یہ سب کسی کہانی کی طرح ہی محسوس ہوتا تھا اور شاید یہ بھی کسی کہانی کا ہی حصہ ہو لیکن اس کہانی اور بہت ساری کہانیوں سے ہمارے ملک کو کیا فائدہ؟ ہمارا ملک تو آج بھی کسی بین الاقوامی یا مغربی کمپنی کے سالانہ منافع کے برابر قرضے حاصل کرنے کے لیے ہی کوشاں ہے۔

یہاں سے وہاں خطوط لکھے جا رہے ہیں کوئی کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو قرضہ نہ دو، کوئی کچھ دہائی دے رہا ہے۔ آخر پاکستان کو اس سب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ایک کم پڑھے لکھے پردیسی نوجوان کو کس طرح اور کیا کچھ سمجھائیں کہ پوری قوم سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیتوں سے جیسے محروم ہو رہی ہے۔

یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ ہم نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے ناشکری کرے جا رہے ہیں۔ ہم ابھی تک اسی کہانی پر سوچ رہے ہیں کہ شیر آئے گا اور کچا چبا جائے گا ( معذرت کے ساتھ اس شیر کا تعلق کم ازکم پاکستان کی کسی پارٹی سے نہیں) پر وہ شیر پچاس برسوں سے زائد گزر گئے صرف دھاڑ لگا کر دانت دکھائے جا رہا ہے۔

سننے میں آیا ہے کہ اس کے دانتوں پر زہر لگا ہے اور اس سے پٹاخے پھوٹتے ہیں اور ہم اسی آواز سے سہمے بیٹھے ہیں، شیر ہمیں اشارہ کرتا ہے تو ہم سہم کر بیٹھ جاتے ہیں، شیر اشارہ کرتا ہے تو ہم کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 1947 کے بعد سے آزادی کا تمغہ سینے پر سجانے کے بعد بھی غلامی کی ان دیکھی زنجیروں سے رہائی نہ حاصل کر سکے لیکن آخر کب تک؟

ایک ہی صفحے کی اصطلاح ویسے توکبھی سمجھ آئی نہیں ہے لیکن بس یوں ہی خیال گزرا کہ اگر اس ایک صفحے کو اپنے ملک کی بہتری اور روشن مستقبل اور رب العزت کی شکر گزاری کے لیے استعمال کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، ویسے بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی سنے نہ سنے، فضا میں تو بازگشت بن کر رقم ہو ہی جائے گی۔ ہماری نئی حکومت ماشا اللہ سے آ چکی ہے کچھ نئے کچھ پرانے کچھ شناسا دیکھے بھالے لوگ ہیں پر توقعات ہمیشہ کی طرح اب بھی بہت ہیں۔

ہمیں اپنی حفاظت پر معمور اداروں پر بھی بھروسہ ہے کہ رب العزت کی طرف سے ہی ان کی بھی تعیناتی ہوئی تھی اگر دونوں بلکہ سارے کے سارے ایک ہی صفحے پر آجائیں اور متحد ہو کر اس جادوگر کے سحر سے نکلنے کی کوشش کریں تو کیا ہم کسی کے آگے قرضے کے لیے سوال کر سکیں گے؟

وہی دور جب پاکستان، چین اور جرمنی کو قرضے دیا کرتا تھا، کراچی پیرس کی مانند روشن اور خوب صورت تھا، پاکستان کی ترقی تو ویسے بھی یقینی ہے بس ذرا سی گرد جھاڑنے کی دیر ہے۔ اب ڈر ڈر کر، سہم سہم کر زندگی گزارنے کا وقت نہیں ہے اوپر والا تو مواقع سب ہی کو دیتا ہے، اس کو استعمال کب کرنا ہے یہ اہم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہی وہ وقت ہے، یہ ہمارے اعلیٰ اداروں کو سوچنا ہے کہ ایک ہی امت کی طاقت میں بڑا دم ہوتا ہے، ہمت مرداں مدد خدا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔