- لوگوں کو لاپتا کرنے والوں کے خلاف سزائے موت کی قانون سازی ہونی چاہیے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- مسائل کے حل کے لیے کراچی کے لوگوں کو آواز اٹھانا پڑے گی، گورنر سندھ
- موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات: تیسرے سال بھی آم کی پیداوار میں نمایاں کمی
- روسی صدر 6 ماہ میں دوسری بار چین کے دورے پر پہنچ گئے
- ملازمت پیشہ خواتین سے متعلق بیان؛ سعید انور تنقید کی زد میں
- فرقہ وارانہ قتل میں ملوث دو ٹارگٹ کلرز گرفتار، 13 افراد کے قتل کا اعتراف
- آئی ایم ایف کا غربت کے خاتمے کے پروگرامز میں توسیع کا مطالبہ
- سپریم کورٹ سے عمران خان کی تصویر وائرل، تحقیقات شروع
- ٹی20 ورلڈکپ کیلئے قومی اسکواڈ کا اعلان کب ہوگا، تاریخ سامنے آگئی
- عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت میں اضافہ
- آزاد کشمیر کے لیے 23 ارب روپے کا پیکیج احسان نہیں ہمارا فرض ہے، وزیراعظم
- یا تو پورا سیزن کھیلو ورنہ نہ آؤ! عرفان پٹھان نے کرکٹرز کو ذاتی ملازم سمجھ لیا
- خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں داخلے پرپابندی عائد
- بھارتی فوج نے جعلی مقابلے میں مزید 2 کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا
- پاک بھارت ٹاکرا؛ ڈراپ اِن پچز کیوں؟ ہربھجن نے تنقید کے نشتر چلادئیے
- غزہ میں اسرائیلی ٹینک کی گولہ باری سے 5 اسرائیلی فوجی ہلاک، 7 زخمی
- بجلی صارفین پر 310 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈالنے کی تیاری
- ٹی20 ورلڈکپ؛ آئی سی سی نے بھارت کو پہلے ہی سیمی فائنل سلاٹ الاٹ کردی
- اسپتال مالک کے اغوا برائے تاوان میں ملوث 3 سابق سرکاری ملازم گرفتار
- پگڑیوں کو فٹبال بنانے کا کہہ کر کیا پراکسیز کے ذریعے ہمیں دھمکایا جارہا ہے؟ سپریم کورٹ
پنجاب اور دہلی کے وزرائے اعلیٰ
پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار منتخب خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف سے عوام کو بڑی امیدیں ہیں، جس توجہ اور محنت سے انھوں نے اپنی حکومت کا آغاز کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے امید کی جاتی ہے کہ وہ ایک بہتر اور عوام دوست وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گی اور اگر یہ امیدیں ٹوٹ گئیں تو مستقبل میں ان کے لیے سیاسی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔
مریم نواز کے عہدہ سنبھالتے ہی وہ جس طرح متحرک ہوئی ہیں ایسا کسی اور صوبے میں نظر نہیں آیا ، مریم نواز کی کوششوں سے تو ظاہر ہو گیا ہے کہ پنجاب کی پہلی بار منتخب خاتون وزیر اعلیٰ پنجاب کی بگڑی سنوار سکتی ہیں۔
پنجاب کی نئی اور دہلی کے آٹھ سالوں سے منتخب وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کا ویسے تو کوئی مقابلہ ہے ہی نہیں کیونکہ 8 سال قبل اقتدار میں آنے والے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ سیاست سے دور تھے وہ اپنے ملک میں کرپشن سے تنگ تھے اس لیے سرکاری ملازمت چھوڑ کر وہ سیاست میں آئے اور انھوں نے 8 سالوں میں عوام سے کیے گئے اپنے اہم وعدے پورے کیے جس کے بعد بھارتی پنجاب کے عوام کو بھی وزیر اعلیٰ دہلی کی شاندار کارکردگی نے متاثر کیا اور وہاں بھی عام آدمی پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اروند کیجریوال نے اپنی پارٹی کا منشور پیش کیا تھا تو انتخابات میں انھوں نے دہلی کی حکومت کسی نہ کسی طرح بنا لی تھی مگر چند ماہ میں انھوں نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ اس صورت حال میں کچھ نہیں کر سکیں گے تو انھوں نے دہلی کی اسمبلی توڑ دی اور عوام کو حقائق سے آگاہ کیا جس کے نتیجے میں نئے انتخابات میں انھیں پہلے سے زیادہ اکثریت ملی جس سے انھوں نے عوام سے کیے گئے تمام وعدے پورے کیے اور بھارت میں بہترین کارکردگی کا نیا اور قابل تقلید ریکارڈ قائم کیا اور بعد میں بھی دہلی کے بھاری اکثریت سے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔
دہلی بھارت کا دارالحکومت ہے اور بھارت میں تقریباً دس سال سے نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت ہے جس کی موجودگی میں دہلی اسمبلی کے انتخابات میں جھاڑو کا انتخابی نشان رکھنے والی عام آدمی پارٹی نے برے حالات میں بی جے پی کو شکست دے کر دہلی کا اقتدار اس سے چھین لیا تھا اور مودی حکومت کی سازشوں کے باوجود عام آدمی پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی اور دہلی کے بعد بھارتی پنجاب میں بھی اسے کامیابی ملی کیونکہ بھارتی پنجاب کے عوام نے دیکھ لیا تھا کہ سیاست میں نووارد مگر عوام کا درد رکھنے والے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اروند کیجریوال نے وہ کچھ کر دکھایا جس کا کسی کو تصور بھی نہ تھا۔
انھوں نے دہلی کے عوام کو درپیش سات اہم مسائل حل کرکے دکھائے اور بی جے پی منہ دیکھتی رہ گئی اور عام آدمی پارٹی بھارت میں مقبول ہوتی گئی۔ دہلی و بھارتی پنجاب کی برسر اقتدار عام آدمی پارٹی کانگریس اور بی جے پی کی طرح پرانی پارٹی نہیں تھی مگر اقتدار میں پہلی بار آنے والے وزیر اعلیٰ نے دہلی کے عوام کی قسمت بدل دی حالانکہ اسے بھارتی مرکزی حکومت کی رکاوٹوں کا بھی سامنا رہا۔ مالی مشکلات بھی پیش آئیں مگر اروند کیجریوال کی شخصیت، سادگی اور بہترین کارکردگی نے بھارت ہی نہیں پاکستان کے عوام کو بھی متاثر کیا اور وہ دنیا میں مشہور ہوئے۔
مریم نواز ملک کے سب سے بڑے اور ملک کی آدھی آبادی سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ تو ہیں مگر انھیں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اپوزیشن کا بھی سامنا ہے جب کہ اروند کیجریوال کو ایسی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا۔
پنجاب کی مضبوط اپوزیشن کسی صورت بھی مریم نواز حکومت کی کامیابی نہیں چاہے گی کیونکہ مستقبل میں مریم نواز حکومت کی کامیابی پی ٹی آئی کی سیاسی موت ثابت ہو سکتی ہے جس سے نہ صرف پنجاب میں بلکہ ملک بھر میں پی ٹی آئی کا سیاسی نقصان ہوگا جس کی پنجاب اور وفاق میں پونے چار سال حکومت رہی اور عمران خان کے انتہائی پسندیدہ عثمان بزدار نے شہباز شریف کی پنجاب حکومت کی تعمیر و ترقی تباہ کرکے رکھ دی تھی مگر پنجاب حکومت جس طرح چلائی گئی اس سے پی ٹی آئی کو نقصان تو ہوا مگر نگراں حکومت میں ہونے والے غلط فیصلوں سے عمران خان مظلوم بن گئے اور عوام ان کی حکومت کی انتہائی بری کارکردگی بھول گئے اور عوام کی ایک تعداد نے پی ٹی آئی کو ووٹ ضروردیے مگر عوام کی ایک بڑی تعداد نے مسلم لیگ ن کی سابق کارکردگی کی بنا پر اسے ایک بار پھر بھاری تعداد میں ووٹ دیے جس سے مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب بن گئیں اور اب ان کا مقابلہ پنجاب کے گمبھیر مسائل سے ہی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کی جارحانہ رویہ رکھنے والی اپوزیشن سے بھی ہے جو اپنی سازشیں جاری رکھے گی۔
مریم نواز عشروں سے اقتدار کے قریب رہیں اور ان کے والد اور چچا ایک مدت سے وفاق اور پنجاب کے حکمران رہے اور اب وہ خود وزیر اعلیٰ بنی ہیں تو وفاق میں ان کی پارٹی کی حکومت اور چچا وزیر اعظم ہیں جو سالوں پنجاب کے حکمران رہے ہیں۔ اب انھیں وفاقی حکومت کا تعاون بھی حاصل رہے گا اور اپنے والد اور چچا کی سرپرستی بھی اور انھیں دونوں کے تجربات بھی راستہ دکھائیں گے اور اب انھیں اپنے والد اور چچا سے بھی اچھی کارکردگی دکھانا ہوگی۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ ہیں تو پنجاب کی وزیر اعلیٰ امیر سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ انھیں پنجاب میں اہم مسائل کو نہ صرف حل کرنا ہے بلکہ پنجاب کو ترقی کی اسی راہ پر گامزن کرنا ہے جو تعمیر و ترقی ان کے بڑوں کے دور میں شروع ہوئی تھی۔ مریم نواز کے لیے صورت حال خوشگوار ہے جب کہ دہلی میں ایسی نہیں تھی۔ مریم نواز بھی وزیر اعلیٰ دہلی جیسی کارکردگی ضرور دکھا سکتی ہیں اور ملک کے باقی مرد وزرائے اعلیٰ سے بہتر کارکردگی دکھا کر آیندہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ ساکھ بحال کر سکتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔