کرپشن کے برقرار تاثرات

محمد سعید آرائیں  منگل 16 اپريل 2024
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

2011 کے پہلے کامیاب جلسے کے بعد پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے ماضی میں اقتدار کی باریاں لینے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو کرپٹ قرار دے کر اپنی سیاست کو عروج پر پہنچایا تھا جس کے بعد 2013کے الیکشن میں پانچ سال مدت مکمل کرکے پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت تیسری بار اقتدار میں آئی تھی اور 1988 سے 1999 تک 11 سال میں یہ دونوں پارٹیاں اقتدار کی دو دو باریاں لے چکی تھیں اور کسی نے اپنی مدت پوری نہیں کی تھی اور دونوں پارٹیوں کے وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دو سویلین صدور غلام اسحاق خان اور سردار فاروق لغاری کے ہاتھوں انھیں حاصل 58/2-B کے اختیارات کے تحت کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر برطرف ہوئے تھے۔

1999 میں جنرل پرویز نے نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کیا اور نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے۔ بارہ اکتوبر 1999 کو نواز حکومت کی برطرفی کا بے نظیر بھٹو نے خیر مقدم کیا تھا اور گیارہ سال دونوں نے اپنی حکومت میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگائے تھے اور کرپشن کے مقدمات بنائے تھے۔

جنرل پرویز نے اقتدار میں آ کر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں کو اپنا ٹارگٹ بنایا دونوں پر کرپشن کے الزامات لگائے اور نیب بنا کر دونوں سابق وزرائے اعظم اور آصف زرداری پر کرپشن کے مقدمات بنائے تو بے نظیر بھٹو جنرل پرویز کے تیور دیکھ کر باہر چلی گئیں اور نواز شریف کو طیارہ اغوا کے جھوٹے مقدمے میں سزا دلائی گئی تو آصف زرداری جیل میں تھے۔ سزا ملنے کے بعد نواز شریف کو دس سالہ معاہدے کے تحت فیملی سمیت جلا وطن کیا گیا۔

آصف زرداری طویل قید کاٹ کر ضمانت پر باہر آئے اور بیرون ملک چلے گئے اور بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے جلا وطن ہوجانے کے بعد جنرل مشرف نے سمجھا کہ اب دونوں کی سیاست ختم ہوگئی دونوں ملک سے باہر رہیں گے۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002میں الیکشن کرائے اور مسلم لیگ قائد اعظم بنوائی۔ 2002کے الیکشن میں جنرل پرویز حکومت میں دونوں جلا وطنوں پر کرپشن کے الزامات لگائے گئے مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے متعدد رہنما الیکشن میں کامیاب ہوئے جن میں کافی لوگ نیب کے ذریعے جنرل مشرف کی حمایت پر مجبور کرائے گئے اور پیپلز پارٹی کے ارکان توڑ کر پی پی پیٹریاٹ بنائی گئی اور دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کو وزارتیں دی گئیں۔

عمران خان نے حصول اقتدار کی دوڑ میں جنرل پرویزمشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت کی مگر جنرل پرویز ایک سیٹ رکھنے والے عمران خان کو وزیر اعظم بنانے پر تیار نہ ہوئے تو انھوں نے جنرل پرویز مشرف سے مایوس ہو کر نواز شریف اور بے نظیر بھٹو پر مبینہ کرپشن کے الزامات لگانا شروع کیے۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار چھوڑنے آصف زرداری کے صدر بننے اور پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت 2008 میں بننے کے بعد عمران خان نے شریفوں اور زرداری فیملی پر کھلے عام چور الزامات لگانا شروع کیے اور 2011 کے بعد انھیں بالاتروں کی حمایت حاصل ہوگئی ، جس پر عمران خان نے ملک بھر میں 2013 کے الیکشن کی بھرپور مہم چلائی مگر عوام نے ان کے کرپشن کے الزامات تسلیم نہ کیے اور دونوں پارٹیوں کو وفاق پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا اقتدار دے دیا اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت بنی ملک بھر میں نواز شریف اور آصف زرداری کو عمران خان نے کرپٹ قرار دے کر نئی نسل میں ان کے خلاف نفرت بڑھائی اور نئی نسل اور خواتین نے عمران خان سے متاثر ہو کر ان کی حمایت کی۔

انھیں عدالتی صادق و امین بھی بنایا گیا مگر عوام کی اکثریت نے 2018 میں پھر بھی مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں اور پیپلز پارٹی کو سندھ میں سب سے زیادہ ووٹ دیے مگر اکثریت نہ ملنے کے باوجود پہلے آر ٹی ایس بٹھا کر پھر اتحادی دلا کر پی ٹی آئی کی کے پی کے بعد وفاق اور پنجاب میں حکومت بنوائی گئی۔ حکومتی سطح پر نواز شریف، آصف زرداری کو کرپٹ قرار دینے کی بھرپور مہم اور حکومت ملنے کے باوجود انھیں کرپٹ عدالتوں میں ثابت نہ کیا جاسکا۔ اپوزیشن نے عمران خان کی حکومت ختم کرکے سولہ ماہ حکومت کی اور اب پھر دونوں اقتدار میں آگئے ہیں مگر دونوں نے عمران خان کے بیانیے کو عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا نہ دونوں نے مبینہ الزامات پر عمران خان کو ہتک عزت کا کوئی نوٹس دیا جب کہ عمران خان اپنی حکومت ہوتے ہوئے دونوں لیڈروں کو عدالتوں میں کرپٹ ثابت نہ کرا سکے، سب گرفتار ضمانتوں پر رہا ہونے کے بعد اقتدار میں آگئے ہیں مگر دونوں کے متعلق عمران خان کا کرپٹ کا تاثر برقرار ہے جسے دونوں مل کر بھی ختم نہیں کرا سکے ۔ آٹھ ماہ سے جیل میں بند عمران خان اپنے کرپشن کے بیانیے کو پھیلانے میں اب بھی وہی انداز اپنائے نظر آتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔