آدھی دنیا میں انتخابات (پہلا حصہ)

زاہدہ حنا  اتوار 21 اپريل 2024
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ بات یقینا بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث ہو گی کہ 2024 ایک ایسا سال ہے جس میں انسانی تاریخ کے سب سے بڑے انتخابات منعقد ہو رہے ہیں اور جن ممالک میں یہ انتخابات ہو چکے یا ہونے والے ہیں وہاں دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی رہتی ہے۔

اس سال دنیا کے دس میں سے سات سب سے زیادہ آبادی والے ملکوں میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات مکمل ہو جائیں گے۔اب آپ یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ یہ سات ملک کون ہیں،تو آپ کو بتائیں کہ ان میں بھارت، انڈونیشیا، امریکا، پاکستان،بنگلہ دیش، روس اور میکسیکو شامل ہیں۔

رواں سال کے سب سے پہلے عام انتخابات 7جنوری کو بنگلہ دیش میں منعقد ہوئے جس میں حکمران جماعت عوامی لیگ نے 224 نشستیں لے کر کامیابی حاصل کی اور حسینہ واجد نے چوتھی بار لگاتار ملک کی وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ان انتخابات کی شفافیت پر اگرچہ کئی حلقوں کی جانب سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے لیکن یہ بھی نا قابل تردید حقیقت ہے کہ ان کے دور حکومت میں بنگلہ دیش نے جو ترقی کی ہے وہ بھی بے مثال ہے۔

ذرا یاد کیجیے 52 سال پہلے جب یہ ملک مشرقی پاکستان تھا تو آج کے پاکستان کے مقابلے میں کتنا پس ماندہ تھا اور آج وہ ہم سے کس قدر آگے نکل چکا ہے۔اس کی وجہ سیاسی و جمہوری استحکام اور حکومت کی درست سمت میں تشکیل دی گئی معاشی اور خارجہ پالیسیاں ہیں۔ بھوٹان میں بھی 9 جنوری کو قومی اسمبلی کی تشکیل کے لیے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔13 جنوری کو تائیوان میں صدر اور قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات منعقد ہوئے۔اس عمل کے نتیجے میں لی چنگ ملک کے صدر بن گئے۔

جنوب مشرقی افریقا کے ملک کوموروس میں 14 جنوری کو صدارتی انتخاب ہوا جس میں ازالی آسومانی %57 ووٹ لے کر دوبارہ صدر منتخب ہو گئے۔السلوا ڈور میں صدر نائب صدر اور قانون ساز اسمبلی کے 60 ارکان کے لیے عام انتخاب ہوئے۔ آذربائیجان میں 7 فروری کو صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جس میں برسر اقتدار صدر علیوف 91 فیصد ووٹ حاصل کر کے دوبارہ صدر بننے میں کامیاب ہو گئے۔

اب ہم آتے ہیں 8 فروری کی طرف۔اس تاریخ کو پاکستان کی 16ویں قومی اسمبلی منتخب کرنے کے لیے پورے ملک کے عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا،ہارنے اور جیتنے والوں نے جس ردعمل کا اظہار کیا وہ سب پر عیاں ہے،اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ایک طویل کشمکش کے بعد بالاخر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا اور منتخب ارکان نے حلف اٹھایا،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے بعد قائد ایوان کو منتخب کرنے لیے خصوصی اجلاس طلب کیا گیا جس میں میاں شہباز شریف بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے،اب وہ وزیراعظم کا حلف لے کر اپنے کام کاآغاز بھی کر چکے ہیں۔

9 مارچ کو نئے صدر کا انتخاب عمل میں آ چکا ہے اور آصف علی زرداری صدارت کا انتخاب کافی بڑی اکثریت سے جیت کر ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو گئے ہیں اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی روایت بھی پوری ہو چکی ہے۔مذکورہ مراحل کی تکمیل کے بعد امید کی جانی چاہیے کہ طویل سیاسی محاذ آرائی کی شدت میں رفتہ رفتہ کمی واقع ہو گی اور ملک اس سیاسی استحکام کی جانب گامزن ہو جائے گا جس کے بغیر موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کیا جانا چاہیے۔

پاکستان کے بعد 27 کروڑ سے زیادہ آبادی والے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا میں 14 فروری کو عام انتخابات ہوئے،اہل ووٹروں کی تعداد 20 کروڑ تھی،72 فیصد لوگوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا،آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک اور تیسری سب سے بڑی جمہوریت ہے۔اس ملک کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ یہاں کے عام انتخابات میں صدر،نائب صدر،قانون ساز اسمبلی اور مقامی حکومتوں کا انتخاب ایک ہی دن کیا جاتا ہے اور پولنگ کا دورانیہ صرف چھ گھنٹے ہوتاہے۔

پارلیمنٹ کے ایوان زیریں،جسے ہم قومی اسمبلی کہتے ہیں،580 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے، ووٹرز 5 لاکھ پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالتے ہیں۔یہ ملک چونکہ ایک دو نہیں بلکہ 14 ہزار جزیروں پر مشتمل ہے لہٰذا حتمی نتائج آنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں پرابوو سوبیانتو کامیاب ہوئے ہیں۔،جنرل سوہارتو نے طویل عرصے تک اقتدار پر مسلط رہے اور ملک پر تقریباً فوج نے 32 سال براہ راست حکمرانی کی۔نوے کی دہانی کے آخر میں ان کے زوال کے بعد رفتہ رفتہ جمہوریت مستحکم ہوئی اور اب یہ ملک دنیا کی تیز ترین رفتار سے ترقی کرنے والے ملکوں کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔

حالیہ اور آیندہ آنے والے مہینوں میں دنیا کے کئی اور ملکوں میں عام انتخاب ہوں گے جن میں ہندوستان اور امریکا کے انتخابات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جن پر دنیا کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں کیونکہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی اور امریکا سب سے عظیم جمہوریت تصور کی جاتی ہے۔ ہندوستان کے عام انتخابات سات مرحلوں میں منعقد ہوں گے,چھ ہفتوں پر محیط یہ عمل 19 اپریل کو شروع ہوگیا ہے۔         (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔