- 2000 سے زائد جگسا پزل اکٹھا کرنے کا ریکارڈ
- کیریبیئنز آج بھی سوئنگ کے سلطان ’وسیم اکرم‘ کے سحر میں مبتلا
- سبزی خوروں کی غذاؤں اور بہتر صحت کے درمیان تعلق کا انکشاف
- گوگل کا اینڈرائیڈ صارفین کیلئے سیکیورٹی فیچر متعارف کرانے کا اعلان
- روہت شرما پاکستانی مداح کے پیغامات پر مسرور
- کوچ بابر کو توقعات کے بوجھ سے آزاد کرائیں گے
- گرمی کی شدت میں اضافہ، وفاقی تعلیمی اداروں کے اوقات کار تبدیل
- ٹی20 ورلڈکپ، شعیب ملک نے ٹیم سے بلند توقعات وابستہ کرلیں
- اسرائیلی ٹینک اپنی ہی فورسز پر چڑھ دوڑے، 5 فوجی ہلاک
- کراچی کے علاوہ لاہور، ملتان کی ٹمبرمارکیٹ بھی احتجاجاً بند کرنیکا اعلان
- 10ماہ میں تجارتی خسارے میں 16.55 فیصد کمی ریکارڈ
- موقف پر کھڑاہوں، گردن کٹوادوں گا، پیچھے نہیں ہٹوں گا، فیصل واوڈا
- پاکستان میں زراعت، آئی ٹی میں سرمایہ کاری کے مواقع ہیں، اسحق ڈار
- پاکستان کا چین کے توانائی قرضوں کی تجدید پر غور، تجاویز تیار
- ڈیوٹی، ٹیکسز ادائیگی پر 248 موبائل ڈیوائسز ان بلاک
- دلِ مردہ دل نہیں ہے۔۔۔۔۔ !
- حجِ بیت اﷲ کی شرائط، فضیلت و برکات
- جج کی دہری شہریت پر ایم کیو ایم، ن لیگ اور آئی پی پی اراکین قومی اسمبلی کی تنقید
- مولانا فضل الرحمٰن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا
- فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس پر از خود نوٹس، سپریم کورٹ میں سماعت آج ہوگی
مہنگے ریلوے سفر میں بدحال مسافر
پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پاکستان ریلوے نے مسافر ٹرینوں اور مال گاڑیوں کے کرایوں میں اضافے کا سلسلہ شروع کیا تھا، وہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود برقرار ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں عالمی سطح پر کمی و بیشی ہوتی رہی مگر پاکستان ریلوے کے کرایوںمیں کمی نہیں ہوئی اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے ریلوے کے اہم محکمے کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے، جہاں کوئی وزیر موجود نہیں اور اویس لغاری کو چند روز کے لیے ریلوے کا وزیر بنایا گیا تھا جس کے بعد سے ریلوے افسران ہی فیصلے کر رہے ہیں ۔
جنھیں مسافروں کا کوئی احساس نہیں جس کی وجہ سے ریلوے مسافر لاوارث ہو کر سفر کر رہے ہیں جب کہ ریلوے کے بڑے افسروں کے سفر کے لیے ریلوے کے خصوصی اور شاہانہ سہولتوں سے آراستہ سیلون موجود ہیں جو مسافروں کا سفر ان کی بوگیوں میں جا کر دیکھیں تو شاید انھیں احساس ہو جائے کہ ریلوے مسافر کس بدحالی میں سفر کرتے آ رہے ہیں مگر وہ ایسا کیوں کریں گے۔
ریلوے ٹرینوں میں بزنس کلاس اور اسٹینڈرڈ اے سی ہیں جب کہ اکنامی کلاس تیسرے درجے کی کلاس ہے۔ تیز رفتار ٹرینوں جن کے کرائے بھی کچھ زیادہ ہیں ان میں کچھ بہتر بوگیاں اکنامی میں لگا دی جاتی ہیں مگر بعض دفعہ قراقرم اور بزنس ٹرین میں بھی پرانی اور خستہ بوگیاں جو سفر کے اب قابل نہیں مگر وہ بھی لگا دی جاتی ہیں جب کہ باقی ٹرینوں میں لگائی جانے والی اکنامی بوگیاں انتہائی خستہ حال اور ناقابل سفر ہوتی ہیں۔
جن کے پنکھے خراب، بلب غائب، واش روم گندے اور بعض میں اندر سے بند کرنے کے لاک تک نہیں ہوتے۔ اے سی کلاسز میں تو لوٹے اور ٹشو رول اور ہاتھ دھونے کا لیکوڈ ضرور ہوتا ہے مگر اکنامی کے لاوارث مسافر لوٹوں تک سے محروم ہوتے ہیں اور مسافر خریدے ہوئے پانی کو پینے کے بعد وہ خالی بوتلیں واش روم میں رکھ دیتے ہیں جو دوسروں کے بھی کام آ جاتی ہیں۔ اے سی بوگیوں میں مسافر کم اور سہولتیں موجود ہوتی ہیں۔
جہاں فاصلے کے بعد صفائی کرنے والے دوران سفر آ جاتے ہیں یا کوئٹہ سے پشاور یا کراچی سے لاہور، روہڑی اور راولپنڈی و پشاور تک کی گاڑیوں میں صفائی کا عملہ مقرر ہے جو پورے سفر میں ایک دو اسٹیشنوں پر اے سی کوچز کی صفائی کردیتے ہیں مگر اکنامی کلاس کے مسافروں کو رفع حاجت کے لیے پانی کی معقول فراہمی، صفائی اور روشنی اور پنکھوں کی ہوا سے مکمل محروم رکھا جاتا ہے جہاں گرمی میں پنکھے چلتے ہیں تو لائٹ نہیں ہوتی۔ واش رومز بدتر اور پانی سے محروم ہوتے ہیں۔ اکنامی کلاس میں بہت سے مسافر سیٹ ریزرو نہ ہونے کی وجہ سے مجبوری میں فرش پر بھی سفر کر لیتے ہیں۔ اکنامی کلاسز میں مسافر بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ان بوگیوں میں پانی جلد ختم ہو جاتا ہے۔
کراچی سے چلنے والی ٹرینوں میں روہڑی، ملتان اور لاہور میں پانی بھرا جاتا ہے اور دوران سفر واش رومز کا پانی ختم ہو جائے تو مسافروں کو گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے یا ضرورت پر خود ہی متبادل انتظام کرنا پڑتا ہے۔ایئرپورٹس کی طرح تمام ریلوے اسٹیشنوں پر فراہم کردہ کھانا اور غیر معیاری ہوتا ہے جب کہ دوران سفر خوردنی اشیا، پانی کی بوتلوں اور کنفیکیشنری کے نرخ اسٹیشنوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور چائے و کھانا فروخت کرانے والوں کے ٹھیکیدار ریلوے عملے اور افسروں کو مفت کھانا اور چائے فراہم کرتے ہیں اور قیمت مسافروں سے وصول کر لیتے ہیں۔
ٹرینوں میں دوران سفر مسافروں کو تکیے اور چادریں مہنگے کرائے پر دی جاتی ہیں جو صاف نہیں ہوتے اور پرانے ہوتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں اور دوران سفر فروخت ہونے والی اشیائے ضرورت اور خوردنی کے سرکاری طور پر نرخ مقرر نہیں ہوتے اور مسافروں کو بازار سے کافی مہنگے ملتے ہیں جن کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔
ریلوے کے سفر سڑکوں کے سفر کے مقابلے میں آسان اور آرام دہ کہا جاتا ہے مگر لمبے سفر کی ٹرینوں کی بعض بوگیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی اوپر کی نشست پر صرف لیٹا جا سکتا ہے بیٹھا نہیں جا سکتا۔ دوران سفر سامان کی حفاظت خود مسافروں کی ذمے داری ہے مگر رات کو بوگی میں روشنی کی فراہمی ریلوے اپنی ذمے داری نہیں سمجھتی اور مسافروں کو کھانا کھانے اور ضرورت پر اپنے موبائل فونز سے روشنی کرنا پڑتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔