دبئی تباہ نہیں ہوا

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 2 مئ 2024
tauceeph@gmail.com

[email protected]

دبئی میں 17 اپریل کو خوفناک بارشیں ہوئیں اور یہ بارشیں مسلسل 12 گھنٹے تک جاری رہیں۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق اسی دن 4 تا 8 انچ (100 سے 200 ملی میٹر) بارش ریکارڈ کی گئی، یوں75 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ مسلسل بارش کے نتیجے میں سیلاب آگیا اور سڑکیں بند ہوگئیں جب کہ بلند و بالا عمارتیں بھی پانی میں ڈوب گئیں۔ دبئی میں کئی سو منزلہ عمارتیں ہیں۔ ہزاروں تارکینِ وطن ان عمارتوں کے تہہ خانوں میں رہتے ہیں۔

بارش کا پانی ان تہہ خانوں میں داخل ہوگیا، بارش کی بناء پر بجلی کا نظام معطل ہوا۔ دبئی کے ایئر پورٹ کئی دن تک بند رہے۔ اب تک دبئی سے آنے اور جانے والی فلائٹوں کا شیڈول معمول پر نہیں آسکا ہے۔ اتنی شدید بارشوں میں صرف 2 کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔ دبئی میں ایک شاندار عمارت برج خلیفہ چند سال قبل تعمیر ہوئی تھی۔ اس عمارت میں 163 منزلیں ہیں۔ یہ عمارت 828 میٹر بلند ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق برج خلیفہ کے سامنے ابھی تک پانی جمع ہے۔ اگرچہ دبئی میں بادشاہت کا نظام قائم ہے مگر دبئی ایک جدید طرزِ ریاست کی اعلیٰ مثال ہے۔ دبئی حکومت نے فوری طور پر امدادی سرگرمیاں شروع کیں۔

موسم کی خراب صورتحال کی بناء پر 100 خاندان پانی میں پھنس گئے تھے، ان کے گھروں میں پانی جمع ہوگیا تھا۔ حکومت نے ان خاندانوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ دبئی میں کام کرنے والی پانچ تعمیراتی فرموں نے بے گھر افراد کو بنیادی رہائش فراہم کیں۔ مختلف اداروں نے نا صرف متاثرین کو کھانا فراہم کرنا شروع کیا بلکہ پانی میں پھنسے ہوئے افراد کے لیے مفت میں ٹرانسپورٹ کی سروس بھی شروع کی۔ میونسپلٹی حکام نے وبائی امراض کی روک تھام کے لیے جراثیم کش اسپرے شروع کیا۔

کچھ تعمیراتی کمپنیوں نے فوراً سوشل میڈیا پر پوسٹ وائرل کی کہ بارش کے پانی سے جن عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے، ان عمارتوں کی مفت میں مرمت کی جائے گی۔ حکومت نے مخدوش ہونے والی عمارتوں کے معاوضے کی کارروائی شروع کی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دبئی پولیس نے شہریوں کی مدد کے لیے ہنگامی سروس شروع کردی۔ دنیا بھرکے اخبارات میں اس بات پر بحث شروع ہوئی کہ یہ بارش دبئی میں ہونے والی مصنوعی بارشوں کی بناء پر ہوئیں یا اس کی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دبئی بنیادی طور پر ایک ریگستان پر آباد ہے اور یہ دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ دبئی میں پہلے بالکل بارش نہیں ہوتی تھی۔

وکی پیڈیا کے مطابق اب کئی برسوں سے بارشوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بارشیں 130 ملی میٹر سالانہ ریکارڈ کی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ دبئی میں کبھی بارش کی نکاسی کی سائنٹیفک بنیادوں پر منصوبہ بندی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرکراچی میں اتنی شدید بارشیں ہوتیں تو مرنے والے افراد کی تعداد 100 سے زائد ہوسکتی تھی۔

زیادہ افراد چھتیں گرنے، دیوار گرنے، بجلی کا کرنٹ لگنے، سڑک پر موجود کھلے گٹروں میں گرنے سے ہلاک ہوتے۔ بارش کے نتیجے میں مہینوں پانی گھروں اور سڑکوں پر جمع رہتا۔ صرف رفاہی تنظیمیں مثلاً ایدھی اور چھیپا وغیرہ عام آدمی کی مدد کرتے یا وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کر کے فوٹوسیشن کرواتے اور یہ میڈیا پر وائرل کیا جاتا۔ حکومت اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کے مابین الزامات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجاتا۔

بلوچستان کا ساحلی شہر گوادرگزشتہ کئی ماہ سے مسلسل بارشوں کی بناء پر تباہی کا شکار ہے مگر وہاں شہریوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ دراصل انسانی معاشرہ کے ارتقاء کے بارے میں مطالعہ کیا جائے تو یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا بھر میں بہت سی قومیں موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کر پائیں اور نیست و نابود ہوگئیں۔ گلوبل وارمنگ کے ماہر جاوید عنایت نے گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے متعلق اردو میں ایک شاندار کتاب تحریر کی ہے۔ جاوید عنایت اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں انسانی زندگی کو سب سے بڑا خطرہ ماحولیاتی تبدیلی بن چکا ہے۔

اس وقت ماحولیاتی تبدیلی اور زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت نا صرف پوری انسانی تہذیب کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکے ہیں بلکہ دیگر حیات جن میں چرند، پرند، پھول ، پودے اور درخت بھی شامل ہیں ان کے لیے بھی سب سے بڑے خطرے کی علامت ہیں۔ زمین ایک ایسی جگہ ہے جہاں زندگی ممکن ہونے کی بنیادی وجہ ہی یہاں کے موسمی درجہ حرارت کا مناسب سطح پر ہونا اور ماحولیاتی حالات کا سازگار ہونا ہے۔ جاوید مزید لکھتے ہیں کہ گوکہ نیچر میں تبدیلیوں کا ایک سلسلہ موجود ہے جو تبدیلیوں کے عمل سے گزر کر ہی نیچرکی قوتوں میں توازن پیدا کرتا رہتا ہے۔

نیچرکی کوئی بھی چیز یکسانیت کا شکار نہیں ہے۔ نیچر کی قوتوں میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں زندگیوں کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں، اگر بارش میں ایک خاص مقدار اور توازن کے ساتھ ہو تو زندگی کی رعنائیوں میں نکھار پیدا ہوجاتا ہے۔ اس بارش سے کھیت کھلیان برے بھرے ہوجاتے ہیں۔ جنگل میں ہری بھری گھاس، پھل پھول اورکئی طرح کی جڑی بوٹیاں اگ آتی ہیں جنھیں کھا کر جنگلی حیات کی زندگی قائم و دائم رہتی ہے۔ بارش سے ندی نالے اور دریا سمندر بہتے ہیں۔

جن میں توازن رہے تو زندگی کی بقاء قائم رہتی ہے، اگر یہی بارش، آندھی اور طوفان کی شکل اختیارکر لے تو زندگیوں کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں اور درختوں اور پودوں کو بھی نیست و نابود کر دیتی ہے۔ آج کے دور کا انسان نیچرکے کچھ قوانین کو سمجھ گیا ہے۔ اسے پتا چل گیا ہے کہ ان قوانین کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ انسان ان کے نقصانات سے بچنے کے لیے صدیوں سے تدابیر کرتا رہا ہے۔

گلوبل وارمنگ نے موسمیاتی تبدیلیوں کو جنم دیا ہے جسے Climate Changeکہا جاتا ہے۔ بعض دفعہ موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کو ایک سمجھا جاتا ہے لیکن یہ دونوں مختلف ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں پرانے موسمیاتی طریقہ کارکو بدلنے کا نام ہے اور موسمیاتی تبدیلی سے سمندر کی سطح بھی بلند ہورہی ہے، چونکہ موسم بدلنے سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں لہٰذا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی ہورہی ہے جو زمین پر زندگی کے لیے بڑا خطرہ بن رہی ہے۔ سائنس دان گلوبل وارمنگ اور اس کے زمین پر اثرات کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ گلوبل درجہ حرارت کے بڑھنے سے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے زیادہ تباہی پھیلانے والے طوفان اور سیلاب آنے کے خدشات پیدا ہوچکے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیاں جو پچھلے 30 برسوں میں پیدا ہوئی ہیں وہ تمام اس زمین کے موسمی عناصر سے جڑی ہوئی ہیں۔ طوفان اور زلزلے گلوبل وارمنگ کی بناء پر آتے ہیں۔ دبئی کے حکمران محمد بن راشد المکتوم نے اس عزم کا اظہارکیا ہے کہ اب پانی کی نکاسی کا جدید نظام تعمیرکیا جائے گا، یوں آیندہ بارشوں سے اتنا نقصان بھی نہیں ہوگا۔

سوشل میڈیا پر وڈیو وائرل ہورہی تھی کہ دبئی کے حکمرانوں نے مندر بنانے کی اجازت دی جس کی بناء پر 17 اپریل کو مسلسل بارش ہوئیں اور دبئی ڈوب گیا۔ بہت سے لوگوں نے اس وڈیو کو ٹیگ کیا۔ کچھ نے تبصرے بھی کیے اور دبئی کی بارشوں کو وہاں کے شہریوں کے لیے سزا قرار دیا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ غلط بیانیہ عام کرنے سے اس ملک کو ماضی میں بہت نقصان ہوا ہے۔ اس ملک کے دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ کسی بھی ایسے بیانیہ کے تدارک کے لیے نوجوانوں کی ذہن سازی کریں تاکہ نئی نسل میں سائنٹیفک سوچ پیدا ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔