مکھی اور نارا…

منظور ملاح  جمعـء 20 جون 2014

جب سندھ کے قدیم دریائی راستوں کی بات کریں گے،تو ہمیں مشرق میں صحرائے تھر کے ساتھ ساتھ ایک دریائی راستہ ملتا ہے،  پانی کے بہاؤ کے راستے  پر سایہ دار پیپل اور برگدکے درخت اور آبپاشی محکمے کے بنگلوز کے نشانات آج بھی نظر آتے ہیں۔

جب پانی اس راستے سے پوری آب و تاب کے ساتھ بہتا تھا تو سکھر سے لے کربحیرہ عرب تک کئی زمینیں سیراب ہوتی تھیں، خاص طور پر ساون کی برساتوں کی موسم میں تو عجیب نظارہ دکھائی دیتا تھا۔

تاریخ دانوں کی اس بہاؤ کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق یہ ہاکڑو دریاء تھا، جس کا مقامی لوک شاعری اور گیتوں میں بھی ذکر ہے، کئی اسے دریائے سندھ کی شاخ سمجھتے ہیں، جو سکھر کے قریب سے نکلتی تھی اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ خود دریائے سندھ تھا، جو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنا بہاؤ مغرب کی طرف تبدیل کرتا گیا۔

دریا کا یہی قدیم بہاؤ سانگھڑ کے علاقے مکھی کے بیچوں بیچ گزرتا ہے، جو اب ’’نارا کینال‘‘ کہلاتا ہے، جس کی مشرق میں واقع ایک قدرتی اچھڑو تھر واقع ہے، جن کی دودھیا رنگوں کے ٹیلوں میںdunes  بھی موجود ہیں، جو کسی بھی اجنبی کو ہمیشہ کے لیے اپنی گود میں پناہ دے دیتے ہیں۔

دریائی پانی کے اس قدرتی بہاؤ کی وجہ سے دونوں اطراف میں اس علاقے میں ایک گھنا جنگل بھی وجود میں آیا، تو ایک سو سے زائد قدرتی جھیلیں بھی سانگھڑ کے دیہ اکرو سے لے کر کھپرو تک وجود میں آئیں،(مکھی کہلایا)۔ سندھ میں کلھوڑوں کی حکمرانی کے دوران کئی لوگ اور قبیلے دور دراز علاقوں سے آکر اس علاقے میں آکر بسے، جن کا گزر بسر مچھلی کا شکار کرنے اور مویشی چرانے سے ہوتا تھا، جہاں یہ مال مویشی ٹولوں کی شکل میں پیٹ بھرنے جاتے تھے اور کئی لوگ اپنا گزر بسر کرنے کے لیے وہاں موجود جھیلوں میں مچھلی کا شکار کرنے جاتے تھے۔

یہ لوگ بیلے میں موجود چھوٹے چھوٹے ٹیلوں پر رہتے تھے، جن میں سے کچھ ابھی بھی اسی شکل میں موجود ہیں۔ ان مقامی لوگوں کے کئی عشقیہ قصے، جیسے صابل اور بہرام جمالی کا لوک قصہ مشہور ہے، تاریخ کے اوراق میں ملتے ہیں۔ جسے یہاں کے مقامی لوگ ایک پودے سے تیارشدہ موسیقی کے ساز  ’’نڑ‘‘سے گاتے ہیں، اس سر کو ’’صابل جوں پھوکوں‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ جب بہرام جمالی مال چرانے جنگل میں جاتا تھا تو صابل کے گھر کے قریب جھاڑیوں میں چھپ کر وہ ’’نڑ‘‘ کے ذریعے اس کو بلاتا، اس ماحولیاتی طور زرخیز خطے میں بہت سے جانور، چرند پرند، بھیڑیا، بارہ سنگھا، تیتر ، مرغابی، نیرگی، خرگوش، مگرمچھ اور شہد کی مکھی  کی  اعلیٰ نسل پائی جاتی تھیں۔ یہاں کے لوگ دن رات لسی اور دودھ پر گزارا کرتے تھے۔

جب جاڑا اپنے آب و تاب کے ساتھ آکے پڑاؤ  کرتا تو کئی پردیسی پرندے سائبیریا کے ٹھنڈے پانیوں سے ہجرت کرکے یہاں پہنچتے، حد نظر تک پانی کالا سیاہ نظر آتا۔ مقامی لوگ شکار کرکے ان پرندوں کے گوشت اور چاول کا پلاؤ پکاتے، جس کی لذت کی بات دور دور تک پھیلتی گئی، یہاں کی مچھلی میں کرڑو (رؤ) پورے ملک میں لذیذ ذائقے کی وجہ سے مشہور ہوئی۔1843 میں جب انگریز سندھ میں وارد ہوئے، تو انھوں نے کچھ نہ کچھ کرنے کی ٹھان لی، جس سے ان کو بھی فائدہ پہنچ سکے۔

1901ء  کے بعد انھوں نے سندھ میں مختلف کینالز بنانا شروع کیے، تا کہ اس زرخیز زمین سے کچھ حاصل کیا جا سکے۔ یوں قدیم دریائی بہاؤ کو بند دے کر کینال کی شکل دی، جسے نارا کہتے ہیں۔ سندھ میں سب سے بڑی کمانڈ ایریا اس کینال کی حدود میں آتی ہے۔ لیکن انھوں نے یہ ضرور کیا کہ نارا کے بائیں جانب جھیلوں کے جال اور قدرتی جنگل محفوظ کرنے کے لیے جمڑاؤ، واڈھکی ، آجو، بقار، ڈھورو نارو کے مقامات پر چھنڈن بنائے، تا کہ برساتوں کی موسم میں پانی وافر مقدار ہونے کی صورت میں ان کے ذریعے جنگل اور جھیلوں میں بھیجا جا سکے۔ تاہم نارا کے دائیں جانب جنگل کاٹ کر اور جھیلیں خشک کر کے زمینیں آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں 1929 میں جمڑاؤ کینال، اس کے بعد مٹھڑاؤ (بان)کینال اور کھپرو کینالیں نارا میں سے نکالیں گئیں، تا کہ نہ صرف مکھی بلکہ جنوب میں تھرپارکر اور بدین کی زمینیں بھی سیراب کی جا سکیں۔ تاہم جب انگریزوں نے مکھی کے مقامی لوگوں کو یہ پیشکش کی کہ وہ اپنی زمینیں آباد کریں، تو انھوں نے دو ٹو ک جواب دیا کہ ھم زمینیں آباد نہیں کر سکتے، البتہ کسی نے جھیل دینے کی فرمائش کی، تو کسی نے مال مویشیوں کے لیے چراگاہ دینے کی۔

یوں ہی زمینیں آباد کرنے کے لیے بھارتی پنجاب میں سے لوگ یہاں لائے گئے، جن کی تیسری نسل آج بھی یہاں آباد ہے۔ یہاں کی باقی زمینیں ان سفید پوش اورکرسی نشینوں کو دی گئیں، جو انگریز حکومت کے مفادات کے رکھوالے تھے، جو بعد میں سر، خان صاحب اور خان بہادر کہلائے۔ اس علاقے میں کپاس کی شاندار فصل ہوتی تھی، جو خام مال کی شکل میں برطانیہ کے فیکٹریوں میں جاتی تھی، یاد رہے کہ یہ علاقہ آج بھی پورے پاکستان میں کپاس کی فصل کے حوالے سے سب سے زیادہ پیداوار دینے والا علاقہ ہے۔

یوں نارا کینال یہاں کے لوگوں کی زندگی بنا رہا، یہ نارا کے پانی اور ان زمینوں کی برکتیں تھیں کہ آزادی کے بعد تنکوں کی بنی جھونپڑیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پکی بلڈنگوں میں تبدیل ہوتی گئیں اور کپاس اور ٹماٹر تجارت کی وجہ سے مکھی کے لوگ ملک کے مختلف گوشوں تک جا پہنچے۔

مکھی کا نام کچھ کے مطابق یہاں شھد کی مکھیوں کے کثرت میں ہونے کی وجہ سے اس علاقے پر پڑا، جب کہ کچھکا خیال ہے کہ یہاں مال مویشی بہت زیادہ تھے، اس لیے مکھیوں کی بھاری مقدار یہاں موجود رہتی تھی، اس لیے اسے مکھی کہتے ہیں، کچھ بھی ہو لیکن یہ نام اس علاقے کی زرخیزی کو ظاہر کرتا ہے۔

2000 میں یہاں نارا کے بائیں جانب چوٹیاری ڈیم بنا تو اس علاقے کا فطری حسن بھی کھو گیا۔ ڈیم کو بند باندھ کر پانی کو قید کیا گیا، تو باقی آس پاس کا علاقہ اجڑگیا، زمینیں خشک ہو گئیں، درخت سوکھنے لگے، تو جنگلی اور آبی زندگی بھی اپنے موت مرگئی۔ مچھلی، شھد، آبی پرندے، مال مویشی اور خاندانوں کے خاندان، سب پلک جھپکنے میں غائب ہوگئے، جو لوگ مچھلی کا شکار کرتے تھے یا ان کے بہت زیادہ مال مویشی تھے، جو پورے مکھی کے علاقے میں امیر ترین لوگ کہلاتے، کیوں کہ تب کسی کے امیر ہونے کا معیار اس کے پاس موجود، مال مویشیوں کے مطابق ہوتا تھا، جب کہ مچھلی کا بیوپار کرنے والے سیٹھ جن کے یہاں دھول اڑاتے ہوئے راستوں پر لینڈ کروزر، جیپ بھی چلتے تھے، ان کے  بھی خالی ہاتھ  ہو گئے۔ ہاں، اتنا ضرور ہوا کہ زرعی زمینیں آباد ہونے سے ایک نیا زرعی کلاس وجود میں آئی اور سندھی روایتوں کے امین وڈیرے کی جگہ اسی کلاس میں سے نئے وڈیرے وجود میں آئے، تو اس معاشرے کی روایات بھی بدل گئیں۔

ہاں البتہ نارا کے بائیں جانب، اب جنگل اور پانی کی جگہ لہلہاتے کھیت نظر آتے ہیں۔ جنھیں دیکھ کر صبح سویرے مرد، عورتیں اور بچے سب نارا کے پانی کو دعائیں دیتے ہیں، گیدڑ اور تیتر  بولتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔