دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا

رئیس فاطمہ  اتوار 13 جولائی 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

جسٹس ہمایوں کا یہ شعر ہماری مجموعی قومی صورت حال کا بہترین عکاس ہے۔

اٹھو‘ وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا

دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی اور ہم ابھی تک رمضان اور عید کے چاند کے نکلنے یا نہ نکلنے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ سنا کر چند منٹوں کے لیے ٹیلی ویژن اسکرین پہ اپنا روئے مبارک دکھا کر حکم صادر فرما دینا کہ ان کی شریعت صحیح کہتی ہے، باقی سب غلط، کہ ایک وہی سچے مسلمان ہیں۔ باقی ان کے نزدیک اس مرتبے کے مستحق نہیں؟ کیا اسے ایک تماشا کہنا غلط ہو گا؟ کھلی آنکھ سے چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور عید منانے کا حکم اس زمانے کا ہے، جب نہ تو دور بین ایجاد ہوئی تھی نہ ہی ارضیات، فلکیات، موسمی اثرات و تغیرات اور چاند کے طلوع و غروب کے علم نے اتنی ترقی کی تھی۔

آج سائنس دان کئی سالوں کا کیلنڈر بنا دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے قابل احترام علمائے دین کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جس سے فرقہ واریت کو فروغ ملے یا حکومت کے خلاف محاذ آرائی کی جا سکے۔ رمضان اور عید کے چاند کا اختلاف ہمیشہ خیبر پختون خوا سے اٹھتا ہے۔ ایک مسجد میں بیٹھ کر شہادتیں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ پورے ملک میں کہیں انتہائی طاقت ور دور بینوں سے دیکھنے کے باوجود کسی کو چاند اپنی جھلک نہیں دکھاتا۔ لیکن ایک مخصوص شریعت سے قربت رکھنے والوں کی اکثریت کو چاند اپنا جلوہ دکھا جاتا ہے۔

اچانک بڑی تعداد میں شہادتیں جمع ہو جاتی ہیں اور اگلے دن روزہ یا عید ہو گی یا نہیں، اس کا فیصلہ نہ صرف ہو جاتا ہے بلکہ عمل درآمد بھی شروع ہو جاتا ہے۔ کیا اسے ہم ’’ریاست کے اندر ایک اور ریاست‘‘ نہیں کہیں گے؟ کیا یہ حکومت کی کمزوری نہیں ہے؟ بالکل ہے لیکن ہمارے وطن میں سول حکومتیں اسی لیے اکثر ناکام رہتی ہیں کہ وہ ان زمینی حقائق کو بالکل نظر انداز کر دیتی ہیں جو بظاہر بہت چھوٹے چھوٹے ایشوز لگتے ہیں۔ لیکن وقت پر ان کا نوٹس نہ لینے کی وجہ سے وہ رائی سے پربت بن جاتے ہیں۔ قریب ترین مثال آپریشن ضرب عضب کی ہے۔ اس کی نوبت ہی کیوں آئی؟ کانٹوں اور خاردار جھاڑیوں کی کٹائی اور صفائی اگر وقت پہ نہ کی جائے تو وہ راستہ بند کر دیتی ہیں۔ پھر ان راستوں کو صاف کرنے کے لیے بعض اوقات ڈائنامائٹ کی ضرورت بھی پڑ جاتی ہے۔

آج تو سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ ایک سال میں کتنے چاند اور کتنے سورج گرہن ہوں گے۔ سب کی تاریخیں بتا دی جاتی ہیں۔ لیکن اپنی غلط بات پہ اڑے رہنا اور اس پہ زبردستی دوسروں سے عمل کروانا کیا دہشت گردی نہیں ہے؟ یہ سارے اختلافات رمضان ہی میں کیوں سامنے آتے ہیں؟ تا کہ حکومت کو نیچا دکھایا جا سکے؟ کہ اصل طاقت ان کے پاس ہے؟ اس رویے سے اور ایک ہی ملک میں دو دو تین تین عیدیں منانے سے ساری دنیا میں جو ہمارا مذاق بنتا ہے اس کی کسی عالم دین کو پرواہ نہیں۔ کیونکہ یہی اختلافی باتیں ہماری بدنامی کا سبب بنتی ہیں۔ بنیادی وجہ جہالت ہے ’’پڑھے لکھے روشن خیال پاکستان‘‘ کا تصور اب محال ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری بزرگ خواتین انگلیوں پہ حساب لگا کے گزشتہ سال کی عید یا بقر عید والے دن میں سے دس دن کم کر کے بتا دیتی تھیں کہ امسال فلاں تاریخ کو رمضان یا عید ہو گی۔ کیونکہ یہ کوئی اتنا پیچیدہ معاملہ نہیں ہے۔ لیکن ہٹ دھرمی کی بات الگ ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب لاؤڈ اسپیکر، مائیکرو فون مولویوں کے تئیں حرام تھا۔ لیکن آج دونوں چیزیں ان کی پسندیدہ ہیں۔ کبھی تصویر اتروانا بھی جائز نہ تھا، کیمرا بھی شیطانی آلہ تھا۔ آج سب سے زیادہ کیمروں کے آگے جلوہ افروز یہی علمائے کرام ہوتے ہیں۔ کالر میں ننھا سا طاقتور مائیک ان کی گرجدار آواز کا محتاج ہے۔ یہ جہاں جاتے ہیں وہاں پہلے سے ان کی صورت گری کا انتظام ہوتا ہے۔ گویا ہر طرف تیرا ہی جلوہ والی بات ہے۔ پھر بھی ضد اور ہٹ دھرمی کی ایسی مثالیں آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گی۔

ایک وہ ہیں جنھوں نے چاند کو تسخیر کر لیا۔ ایک ہم ہیں کہ ہر معاملے میں الٹی گنتی، ہمارا مقدر ہے۔ ہم صرف دوسروں پہ الزام تراشی میں ماہر ہیں۔ مثبت سوچ کے ہم عادی نہیں ہیں۔ کیونکہ مثبت سوچ ہمیشہ سچ اور علم کے پیٹ سے جنم لیتی ہے جب کہ سچائی اب کسی بھی معاملے میں ہمیں سوٹ نہیں کرتی۔ وہ زمانے گئے جب لوگ کہتے تھے ’’سچے کا بول بالا‘ جھوٹے کا منہ کالا۔‘‘ آج معاملہ دگر ہے۔ پستی کی طرف گرتے جایے لیکن راگ ترقی کا الاپتے جایے۔ کاغذ، قلم، بال پوائنٹ، ریلوے، ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریڈیو، ٹیلی ویژن، کیمرا، کمپیوٹر، موبائل فون، لینڈ لائن، بیرومیٹر، تھرما میٹر، جان بچانے والی دوائیں، انجکشن، اسپلٹ ایئرکنڈیشنر، مائیکرو ویو اوون، فریج، ڈیپ فریزر اور دیگر انسانی استعمال کی اشیا میں سے بھلا کون سی ایسی ہے جو ہماری ایجاد ہو۔ ہم تو صرف اس زمانے کو یاد کر کر کے خوش ہونے والی قوم ہیں، جب یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اور مسلمان علمی ورثے کی روشنی کے مالک تھے۔ اس حقیقت کا اعتراف برٹرینڈ رسل نے بھی اپنے ایک مضمون میں کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ایک وہ وقت تھا جب یورپ میں کلیسا کی حکمرانی تھی۔ کوپرنیکس اور گلیلیو کے نظریات کو مذہب سے ٹکراؤ کا نام دے دیا گیا تھا کہ دونوں نے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کہا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے جب کہ کلیسا کے طاقت ور طبقے کا ماننا تھا کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے۔ جلد ہی اہل یورپ کو اندازہ ہو گیا کہ ریاست کے معاملات میں کلیسا کی بڑھتی ہوئی دخل اندازی ترقی کے راستے مسدود کر دے گی۔ تعلیم یافتہ قومیں بہت جلد حساس معاملات کا ادراک کر لیتی ہیں۔ وہ لکیر کی فقیر نہیں ہوتیں۔

لہٰذا جوں ہی وہاں یہ احساس جاگا کلیسا کے انتہائی بااثر طبقے کے اختیارات محدود کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی گئی۔ اور پھر یہیں سے یورپ کے نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہوتا ہے۔ لیکن ہم وہ بدنصیب قوم ہیں جس نے اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ان گروہوں کی نہ صرف سرپرستی بلکہ ان کی آغوش میں بیٹھ گئے۔ بقول شوقؔ قدوائی:

جس طرف کی تان سنیے‘ اک نرالا راگ ہے
شوقؔ‘ اپنی اپنی ڈفلی‘ اپنا اپنا راگ ہے

یہی وجہ ہے کہ ہر سو انتشار ہے۔ اور اس انتشار اور اضطراب کو دور کرنے کے لیے کسی حکومت نے نہیں سوچا۔ حکومت کی ترجیحات آج بھی وہی ہیں جو پہلے تھیں۔ یعنی اقربا پروری اور علاقائی و لسانی سوچ کو بڑھاوا دینا۔ پچھلے دور میں جب حکومت نے پانچ سال پورے کرنے کا ریکارڈ بنایا تو لوگ کسی بھی جائز کام کے لیے کسی پیپلز پارٹی والے کو ڈھونڈا کرتے تھے۔ آج وہی لوگ بلکہ خود پی پی سے وابستہ وہ لوگ جو نوازے گئے، وہ مسلم لیگ (ن) کے کسی ایسے آدمی کو ڈھونڈتے ہیں جو ان کی سفارش کر سکے۔ موجودہ صورت حال سے افسردہ ایک سرکاری افسر نے جب یہ کہا کہ ان کی ترقی اس لیے رکی ہوئی ہے کہ (ن) لیگ میں کوئی ان کا جاننے والا نہیں، تو میں نے ان سے کہا کہ جب آپ کی ترقی ہوئی تھی تب دوسرے بھی یہی کہتے تھے کہ پی پی میں ان کی سفارش کرنے والا کوئی نہیں۔

بس اپنی اپنی باری اور اپنے اپنے لوگ۔ وہ مارے جاتے ہیں جن کے ماتھوں پہ کسی سیاسی پارٹی کا جھومر نہیں۔ خواہ وہ ادیب ہو، شاعر ہو، کالم نگار ہو، پروفیسر ہو، صحافی ہو یا کچھ اور۔ نہ اس کے علم و مرتبے کی قدر ہے نہ اس کا جائز مقام ملتا ہے کہ بادشاہوں کے آگے جنھوں نے جھکنے سے انکار کیا، قصیدہ خوانی کو باعث تذلیل سمجھا وہی تاریک راہوں میں مارے گئے۔ اور جنھوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ہر اس شخص کو سر پر بٹھانا شروع کر دیا جو کسی بھی علمی و ادبی ثقافتی سرکاری ادارے کا سربراہ سیاسی وابستگیوں کی بدولت بنا تو ان شخصیات کے اعزاز میں دعوتیں کرنے والوں نے خوب خوب مرتبے پائے کہ خوشامد ایک ایسا ہنر ہے جس سے سب کو کاٹا جا سکتا ہے۔ جو تیز دھار تلواروں اور آریوں سے نہ کٹ سکے انھیں خوشامد اور قصیدہ خوانی نے بام عروج پر پہنچا کر بہت سے میڈل گلے میں ڈال دیے کہ زمانہ ان ہی خوشامد خوروں کا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔