صحافی اور صحافتی تنظیمیں

مقتدا منصور  اتوار 13 جولائی 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

مئی 1969ء میں جنرل یحییٰ خان کی کابینہ کے وزیر ائیر مارشل نور خان  نے ملک کی تاریخ کی تیسری لیبر پالیسی دی۔ اس لیبر پالیسی میں بعض اچھے نکات کے علاوہ ایک نکتہ فیکٹریوں، ملوں اور کارخانوں میں سودے کار ایجنٹ کے لیے ریفرنڈم متعارف کرانے کا تھا۔

یہ پالیسی دراصل پاکستان میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر ایک ضربِ کاری تھی، کیونکہ اس پالیسی سے قبل ہر صنعتی ادارے میں صرف ایک ہی یونین ہوا کرتی تھی۔ مگر اس پالیسی کے نتیجے میں ہر صنعتی یونٹ میں ایک سے زائد یونینیں قانونی طور پر وجود میں آ گئیں اور ان کے درمیان اجتماعی سودے کار ایجنٹ کی شکل میں اقتدار کی کشمکش شروع ہو گئی، جس کے نتیجے میں ٹریڈ یونین تحریک مختلف دھڑوں میں منقسم ہوتی چلی گئی اور بالآخر اپنی قوت کھو بیٹھی۔

ٹریڈ یونین میں پہلی تقسیم اس وقت سامنے آئی جب ایک مذہبی جماعت نے پورے ملک میں ایک متوازی ٹریڈ یونین کھڑی کی۔ اس کے بعد اس کے پیٹ میں دوسرا چھرا پیپلز پارٹی نے گھونپا، جس نے اپنا ’’پیپلز لیبر بیورو‘‘ قائم کیا۔ اس کے بعد ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا، یعنی ہر جماعت کے لیبر بیورو تشکیل پانے لگے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب ٹریڈ یونین نظریات کے ساتھ لسانی اور سیاسی بنیادوں پر منقسم ہوگئی۔ جس کی وجہ سے اس کی اہمیت، افادیت اور قوت رفتہ رفتہ کم ہوتے ہوئے ختم ہو کر رہ گئی۔

بیسویں صدی کی آخری دہائی کے دوران سرد جنگ کا خاتمہ اور سوویت ریاست کا انہدام ٹریڈ یونین تحریک کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اس کے بعد سے ٹریڈ یونین محض نمائشی حیثیت کی حامل ہوکر رہ گئی۔ حالانکہ محنت کشوں کے حقوق کے نام پر قائم کردہ این جی اوز نے مزدور حقوق کی پیروی (Advocacy) کے ذریعے اس تحریک کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ سب کوششیں اس لیے بے سود رہیں، کیونکہ سرمایہ کی گلوبلائزیشن نے صنعت کاری اور محنت کے رشتے کو بری طرح متاثر کر دیا، جس کے نتیجے میں اجتماعی سودے کاری کے انداز بھی تبدیل ہو گئے۔

جس طرح صنعتی سیکٹر میں ٹریڈ یونینیں قائم ہوئی تھیں، اسی طرز پر پیشہ ور افراد نے بھی اپنے پیشہ سے متعلق مختلف تنظیمیں قائم کی تھیں۔ ان کی تاریخ کم و بیش ایک صدی پر محیط ہے۔ ان میں چند تنظیموں نے زیادہ فعالیت کے ساتھ کام کیا اور آج بھی خاصے منظم انداز میں مصروف عمل ہیں، گو ان میں بھی مختلف نوعیت کی تقسیم پیدا ہو چکی ہے۔ ان میں ڈاکٹروں کی ملک گیر تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) اور عامل صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) شامل ہیں۔

PFUJ جنوبی ایشیاء میں صحافیوں کی پہلی ٹریڈ یونین ہے، جو 1950ء میں قائم ہوئی۔ اس نے صحافیوں کے حقوق اور آزادی صحافت و اظہار کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔ اس کے رہنمائوں نے ان حقوق کے لیے روز اول ہی سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ نور خان کی پالیسی کے اثرات صحافت اور صحافتی تنظیموں پر بھی مرتب ہوئے۔ خاص طور پر ایک مذہبی جماعت اور اس کے ہمنوا چند صحافیوں نے اس وقت کے وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان مرحوم کے اشارے پر جب اپنی متفقہ تنظیم میں دراڑ ڈالی، تو صحافی بھی تقسیم ہو گئے۔ گو جنرل ضیاء کے دور میں صحافیوں نے آزادیِ اظہار کے لیے طویل جدوجہد کی اور قید و بند کے علاوہ کوڑوں کی سزائیں تک بھگتیں۔

لیکن نظریاتی بنیادوں پر اس تقسیم نے صحافیوں کی قوت کو خاصی حد تک کم کر دیا۔سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جہاں بہت سی روایتی لڑائیوں کا انداز بدلا، وہیں PFUJ میں نظریاتی بنیاد پر دھڑے بندی بھی برائے نام رہ گئی۔ کیونکہ مختلف شہروں کے پریس کلبوں کے انتخابات میں ان دونوں تنظیموں نے مشترکہ امیدوار کھڑے کرنا شروع کر دیے۔ کراچی پریس کلب میں گزشتہ کئی برسوں سے دونوں تنظیمیں مل کر انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ لیکن گزشتہ برس PFUJ ایک نئی تقسیم کا شکار ہو گئی۔ اس نئی تقسیم نے معاشرے میں پھیلی فکری افراتفری پر مہر صداقت ثبت کر دی۔ بہرحال اس تقسیم کا نقصان صحافت اور صحافیوں کو پہنچ رہا ہے۔

گلوبلائزیشن کے اس دور میں جہاں ہر شعبہ حیات میں پیشہ واریت (Professionalism) کی اہمیت کم ہو گئی ہے اور اس کی جگہ کاروباریت نے لے لی ہے، وہیں لوگ پیشہ ورانہ اہلیت میں اضافہ اور اس کی باریکیوں کو سمجھنے اور ان پر توجہ دینے کے بجائے مال بنانے کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر شعبے میں معیار اور کارکردگی گر گئی ہے۔ اگر اپنی بات کو صحافت تک محدود رکھیں تو ماضیِ قریب میں صحافی اول تو کوئی دوسری ذمے داری قبول نہیں کرتے تھے۔ اگر قبول کر لیں تو جب تک اس ذمے داری کی تکمیل نہ ہو جائے، صحافت سے دور رہتے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صحافت غیر جانبداری کی متقاضی ہوتی ہے، جب کہ ریاست کے کسی انتظامی شعبے کی ذمے داری غیر جانبدار نہیں رہنے دیتی۔ لیکن اب ان اصولوں پر توجہ دینے کی روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

حال ہی میں ایک سینئر صحافی پہلے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ رہے، اس کے بعد انھوں نے کرکٹ بورڈ کی ذمے داری قبول کر لی۔ ان کی اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی صحافتی برادری کے لیے ناراضگی نہیں بلکہ خوشی کا باعث ہے۔ شکوہ اس بات پر ہے کہ انھوں نے ان ذمے داریوں کی بجا آوری کے ساتھ سیاسی تجزیہ نگاری بھی جاری رکھی۔ جس سے ان کی غیر جانبداری پر انگلیاں اٹھیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ اگر وہ اس دوران ٹیلی وژن پر تجزیہ نگاری سے دور رہتے تو زیادہ بہتر ہوتا اور ان کے مقام و مرتبہ میں اضافے کے ساتھ صحافت پر بھی کوئی آنچ نہ آتی۔

پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ فیوڈل mindset اور قبائلیت پر مبنی کلچر کا ہے۔ ملک میں صنعتکاری کا عمل شروع ہو جانے کے باوجود معاشرہ ابھی تک زرعی معاشرت سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔  جو بڑے شہر چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں، وہاں اربنائزڈ کلچر کے بجائے آج بھی برادریوں کی شکل میں زرعی معاشرت کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ یہ معاشرت فکری ارتقاء اور نئے خیالات کے لیے قبولیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔

اس رویے کی واضح مثال یہ ہے کہ ہمارے یہاں صنعتکار اور بڑے کاروباری افراد اپنے کاروباری اداروں میں کارپوریٹ کلچر کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا طرز عمل انیسویں صدی کے سیٹھوں سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ جدید کارپوریٹ کلچر تو دور کی بات ان اداروں میں اوائل بیسویں صدی کی کمپنیوں کا نظام بھی قائم نہیں ہو سکا ہے۔ یہی مزاج سرکاری محکموں کے اہلکاروں اور مختلف شعبہ جات سے وابستہ بااثر افراد میں بھی نظر آئے گا۔

صحافت میں اس قسم کا مزاج آزادانہ رپورٹنگ اور عوام کو صحیح معلومات فراہم کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔ ذرائع ابلاغ عوام تک اطلاعات یعنی (Information) کی رسائی، ان کی معلومات (Knowledge) میں اضافے کے ساتھ انھیں تفریح فراہم کرنے کا بھی ذریعہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا صحافت کے شعبے میں فیوڈل ذہنیت عوام کے ساتھ مکالمہ یعنی Interactive dialogue کا راستہ بند کر دیتی ہے، جس کا نقصان صرف عوام کو نہیں ہوتا، بلکہ خود ذرائع ابلاغ کو پہنچتا ہے۔

پرنٹ میڈیا کے بعد فلم اور ریڈیو اور پھر ٹیلی وژن اور اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اطلاعات اور معلومات تک رسائی اور تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ جو بات رسمی میڈیا پر نہیں کہی جا سکتی وہ سوشل میڈیا پر بہت آسانی کے ساتھ احباب تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ اس لیے آئین کے آرٹیکل 19 اور AK کے تحت عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ تک بلا کسی رکاوٹ رسائی اختیار کریں۔ لہٰذا  Youtube پر پابندی عوام کے اس حق کی خلاف ورزی ہے۔

پھر اصل بات کی طرف واپس آتے ہیں، صحافی اور صحافتی تنظیمیں آئین کے آرٹیکل 19 اور 19A کے مطابق عوام کی معلومات تک رسائی کے ذریعہ آزادیِ اظہار کے حق کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر یہ تنظیمیں کمزور ہوتی ہیں، تو ان کے اپنے پیشہ ورانہ حقوق تو متاثر ہوتے ہی ہیں، بلکہ عوام کی اطلاعات اور معلومات تک رسائل کا حق بھی متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے صحافتی تنظیموں کا مضبوط ہونا، عوام کے آزادی اظہار کے حق کے لیے بھی ضروری ہے۔

ان میں فیوڈل انا پرستی کے کلچر سے جان چھڑانے کا شعور انھیں حوصلہ اور برداشت کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ لہٰذا بیشک ملک میں فیوڈل کلچر کی جڑیں مضبوط ہوں، صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کو اس کلچر کے زیر اثر نہیں آنا چاہیے اور دو قدم آگے بڑھ کر آزادی اظہار اور آزادی صحافت کو یقینی بنانے کے لیے اپنے آپ کو فروعی اختلافات کے چنگل سے باہر نکالنا ہو گا اور ریاستی منتظمہ کو ذرائع ابلاغ پر کسی قسم کی قدغن لگانے سے باز رکھنے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔