کیا ہم نے قرآن کو چھوڑ نہیں دیا

اوریا مقبول جان  پير 21 جولائی 2014
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

بخشش اور شفاعت کے طلبگار رمضان کے اس آخری عشرے میں رات دن آنسوئوں سے تر آنکھوں کے ساتھ اپنے گناہوں سے استغفار بھی کرتے ہوں گے اور نار جہنم سے آزادی کی دعائیں بھی۔ مسجدیں اعتکاف کرنے والوں سے آباد ہو چکیں ہیں۔ ایک اہتمام ہے جو ہر رمضان بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ گزشتہ چالیس سال سے میں لوگوں کا عبادات کے ساتھ تعلق دیکھ رہا ہوں۔ ہر سال اس میں اضافہ ہوتا ہے۔

مسجدوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ان کی وسعت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جہاں کبھی تنکوں کی بنی ہوئی صفیں ہوتی تھیں‘ وہاں اب دبیز قالین بچھے ہوئے ہیں۔ کچے گارے اور اینٹوں سے بنی ہوئی گائوں کی مسجدوں پر بھی خوبصورت ٹائلیں‘ سنگ مرمر اور آرائشی میناکاری نظر آتی ہے۔ مسجد میں جہاں کبھی پنکھے بھی میسر نہ تھے اب وہاں نمازیوں کی سہولت کے لیے ائر کنڈیشنڈ لگے ہوئے ہیں۔ یہ حال اور یہ جذبہ شوق صرف مسجدوں تک ہی محدود نہیں‘ جس شہر میں کبھی ایک یا دو ایسے اللہ کے برگزیدہ بندے ہوا کرتے تھے جن کی قبریں مرجع خلائق ہوتی تھیں‘ ان پر عقیدت مندوں نے مزار تعمیر کیے ہوئے تھے‘ اب ان میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ آپ کو ہر دوسرے موڑ پر ایک گنبد ایسا نظر آ جائے گا اور شہر میں کسی نہ کسی عرس کے اشتہار بلکہ رکشوں پر فلیکس ضرور دکھائی دیں گے۔

آپ اگر کسی بھی شہر میں ایسی تقریبات جن میں عرس‘ محافل میلاد‘ محافل نعت کی فہرست مرتب کریں تو یہ آپ کے لیے ممکن ہی نہیں ہو گا کہ سب کی سب میں شرکت کر سکیں۔ نعت خوانوں کی قدر و منزلت اور عزت افزائی کا یہ عالم ہے کہ لوگ ان کو ثنا خواں مصطفے سمجھتے ہوئے ان پر دولت نچھاور کر رہے ہوتے ہیں۔ اہل بیت رسولؐ کے محبت کے مظاہرے بھی اب دن بدن بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ان کی تعداد میں ہی اضافہ نہیں ہوا ہے بلکہ ان میں شرکت کرنے والوں میں بھی اور اسے منانے کی شدت بھی دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ شہر بھر میں صرف دسویں محرم کا جلوس عزاداری نکلتا تھا جسے پورا شہر دو  رویہ کھڑے ہو کر اور عورتیں بچے چھتوں سے دیکھا کرتے تھے۔

باقی جلوس بڑے شہروں میں ہی ہوا کرتے۔ لیکن اب تو ہر بستی اور قریے میں غم حسینؓ بھی منایا جاتا ہے اور شہادت علیؓ کے جلوس میں بھی آنکھیں آنسوئوں سے تر کی جاتی ہیں اور سینہ غم گساری میں ماتم کناں۔ یہی حال مجالس کا ہے‘ آپ ان کی فہرست مرتب کریں تو آپ کو کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی حوالے سے کوئی مجلس ضرور میسر آ جائے گی جہاں آپ اہل بیت رسولؐ سے اپنی محبت اور مئودت کا اظہار کرنے کے لیے جا سکتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد میں بھی ان سالوں میں کثیر اضافہ ہوا ہے جو گلیوں‘ بازاروں اور محلوں میں گھوم پھر کے لوگوں کو دین کی اصل اساس کی طرف لوٹنے کی تبلیغ کرتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ اکا دکا جماعت کبھی کبھار کسی محلے کی مسجد میں پڑائو ڈالتی اور لوگوں کو مغرب کی نماز کے بعد ایک ایسے بیان کی طرف دعوت دیتی جس میں دنیا و آخرت کا نفع اور بھلائی ہو۔ آج آپ کو یہ روز مرہ کا معمول نظر آتا ہے۔ کبھی صرف ایک مقام پر سالانہ اجتماع ہوتا تھا‘ اب ایسے کئی سالانہ اجتماع ملک کے ہر شہر میں نظر آتے ہیں۔ تحمل اور بردباری کا نمونہ یہ لوگ اب اپنی لگن میں تیز اور تعداد میں زیادہ بلکہ کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔

بلکہ پہلے تبلیغ صرف ایک مسلک تک محدود تھی اب یہ راستہ دوسرے مسالک نے بھی اختیار کر لیا ہے اور ان کے بھی اجتماع ہوتے ہیں اور وفود اور جماعتیں گلی گلی کوچہ کوچہ نکلتی ہیں۔ سنت رسولؐ پر عمل کرنے کے دلنشین منظر عماموں‘ مسواکوں‘ خوشبوں اور داڑھیوں کی تراش خراش سب کچھ اب زیادہ تعداد میں نظر آتے ہیں۔ لوگوں کا مذہب کے ساتھ جذبۂ شوق و عقیدت دیکھتے ہوئے دنیا بھر کی کمپنیاں اپنا مال بیچنے آ پہنچتی ہیں۔

ایک رنگا رنگی اور گہما گہمی ہے‘ عقیدتوں کے پھول نچھاور ہو رہے ہیں‘ علماء مذہبی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کر رہے ہیں‘ طرح طرح کے پکوان پک رہے ہیں‘ ایک پر کیف فضا ہے جس میں کمپنیوں کے تحائف کی بھی تقسیم ہو رہے ہیں‘ اشتہارات والے وہیں آتے ہیں جہاںکشش محسوس ہو اور پورے سال میں سب سے زیادہ مال رمضان کی نشریات پر لگایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ اور بڑی اشتہاری مہم رمضان کی نشریات میں چلائی جاتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگ ان نشریات کو دیکھتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں ورنہ کون بے وقوف ہے جو اپنا سرمایہ ان نشریات پر صرف کرے۔

اس ساری رنگا رنگی اور گہما گہمی کے باوجود‘ مذہب اور دین سے لگاؤ کے ان عملی مظاہر کے باوصف‘ مساجد کی بہتات‘ تزئین‘ محافل و مجالس کی کثرت اور لوگوں کی دین کے ساتھ وابستگی میں اضافے کے باوجود اس امت پر ادبار کی کالی گھٹا چھائی ہے۔ ذلت و رسوائی اس کا مقدر ہے‘ جو چاہتا ہے گزرتے گزرتے دو میزائل داغ جاتا ہے‘ چند لوگوں کو قتل کر جاتا ہے۔ ایک تماشہ گاہ ہیں ہم لوگ‘ ایک کھیل ہیں کہ ہر کسی کو ہمارے ساتھ کھیلنے میں لذت ملتی ہے۔ کچھ دن ہم نے اس پر چیخ و پکار کی لیکن اب ہماری بے حسی بھی عروج پر ہے۔ امت مسلمہ میں چودہ سو سالوں میں کبھی اتنی بے حسی نہیں تھی جتنی آج ہے۔

کیا کبھی ایسا ہوا کہ اس امت کے ایک علاقے میں ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں اور دوسری جانب لوگوں کے روزمرہ معمولات تو دور کی بات عیش و عشرت اور رنگا رنگی میں بھی فرق نہ آئے۔ کہا جاتا ہے امت مسلمہ کہاں ہے‘ اب تو سب کو اپنے اپنے ملک کی پرواہ کرنا چاہیے۔ کیا ہم اپنے ملک میں ہی سہی‘ کسی دوسرے انسان پر ظلم کی پرواہ کرتے ہیں۔ غزہ میں شہید ہونے والے معصوم بچے اور عورتیں تو بہت دور ہیں۔ کراچی‘ لاہور‘ کوئٹہ اور پشاور میں کسی بھی حادثے میں مرنے والوں کے سوگ میں صرف اس کے عزیز واقارب ہی اشک کناں ہوتے ہیں۔

ہر قوم‘ قبیلے اور مسلک کے لوگ اپنے مرنے والوں کا ماتم کرتے ہیں‘ اپنی مظلومیت پر نوحہ کرتے ہیں۔ امت مسلمہ کا نوحہ پڑھنا تو اب دور کی بات ہے اب آپ ان ریاستوں میں جو مغرب نے سو سال پہلے تخلیق کی تھیں آپ کو وہاں قومیت کے حوالے سے دکھ کا اظہار بھی نظر نہیں آئے گا۔ کیا شام میں علوی کسی سنی یا شعیہ کی موت کو اپنا دکھ سمجھتا ہے‘ کیا عراق‘ مصر‘ لیبیا‘ سعودی عرب کسی ایک ملک میں بھی صرف قوم کے نام پر ہی سہی ہمارے درد مشترک ہیں۔ ہماری حالت عرب کے ان بدوؤں کی طرح ہے جو زمانہ جاہلیت میں قوم‘ قبیلے اور برادری میں تقسیم تھے بس ہم نے اس میں مسلک کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔

امت مسلمہ کا نوحہ پڑھنا اب صرف چند دقیانوسی اور فرسودہ نوحہ گروں کا مقدر رہ گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ جس قدر دین سے محبت کے مظاہر میں اضافہ ہوا ہے ہماری ذلت و رسوائی میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔ شاید اس لیے کہ ہم جس کو دین سمجھ کر اپنی پوری زندگی اس سے وابستہ کر لیتے ہیں وہ دین نہیں بلکہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ پوری عمارت الحاد کی اینٹوں اور سود کی معیشت سے استوار ہو، اس کی بنیادوں میں قوم پرستی، باطل اور طاغوت سے محبت کا گارا اور سیمنٹ لگا ہو تو اس کی آرائش اور اس پر چھڑکی جانے والی خوشبو اس کے اندر کی بدبو نہیں مٹا سکتی۔ ہم ایک سڑاند زدہ بدبو دار معاشرہ بن چکے ہیں۔ ایسے معاشرے اسی طرح ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔

رات بھر کھڑے عبادتوں میں ہم مظلوم کی مدد اور ان کے حق میں جہاد کی آیتیں پڑھتے ہیں لیکن ہمارے قدم ان کی مدد کو نہیں اٹھتے۔ ہم اس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے روز شفاعت کے طلبگار ہوں گے جس کی امت کو ہم نے رنگ، نسل، زبان، علاقہ اور مسلک کے نام پر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ رمضان کی راتوں اور آخری عشرے کی عبادات میں ہم بخشش اور شفاعت کے طلبگار ہیں۔ لیکن قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ روز قیامت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے خلاف ایک مقدمہ تیار کر رکھا ہے۔ سورۂ فرقان میں اللہ قیامت کے دن کی منظر کشی کرتے ہوئے آخر میں فرماتا ہے ’’اور رسول کہیں گے! اے میرے رب یہ ہے میری قوم جو اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنا کر چھوڑ بیٹھی تھی‘‘ (الفرقان 30)

کیا ہم نے قرآن کو چھوڑ نہیں دیا۔ اپنے سیاسی، معاشی، ثقافتی، خاندانی اور معاشرتی نظام پر ایک نگاہ ڈال لیں اور پھر قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت کے طلبگار رسول اللہ کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہیں۔ کون ہے جو سامنا کر سکتا ہو۔ سوچتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔