کچھ بیماروں اور چارہ گروں کے بارے میں

انتظار حسین  اتوار 3 اگست 2014
rmvsyndlcate@gmail.com

[email protected]

کسی بھلے شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ع

بازار ہم گئے تھے اک چوٹ مول لائے

مگر ہمارا تجربہ یہ ہے کہ چوٹ کھانے کے لیے بازار جانا ضروری نہیں۔ چوٹ کھانے والے بسا اوقات گھر میں بیٹھے‘ بیٹھے ہی چوٹ کھانے کا انتظام کر لیتے ہیں۔ پھسلنے سے جو چوٹ آتی ہے اس کی ایک قسم وہ ہے جو ساون سے منسوب ہے۔ نظیرؔ اکبر آبادی نے تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ لوگ ساون کی کیچڑ پانی میں کس کس رنگ سے پھسلتے ہیں۔ گلیوں بازاروں میں گھومتے پھرتے ہوئے تو پھسلتے ہی ہیں لیکن جو گلیوں بازاروں میں پھسلنے سے بچ گیا ع

وہ اپنے صحن میں آ کر پھسل گیا

آجکل کے گھروں میں صحن تو برائے نام ہی ہوتے ہیں۔ تو کیا پھر ہم پھسلیں گے نہیں۔ ہمارے ساتھ یہ ہوا کہ کمرے کے اندر چلتے ہوئے پائوں رپٹا اور ہم پھسل گئے اور ایسے پھسلے کہ گھر سے نکل کر اسپتال میں پہنچ گئے۔ وہاں ڈاکٹری معائنہ سے پتہ چلا کہ اندر سے ہڈی چٹخ گئی ہے۔ پھر کیا کیا جائے۔ آپریشن کرائو۔ لیجیے جسے ہم سوئی سمجھے تھے وہ بھالا بن گیا۔ بس پھر یہ عالم کہ بستر پر بے بس پڑے ہیں اتنے بے بس کہ خود کروٹ بھی نہیں لے سکتے۔ مگر یہ شالا مار اسپتال تھا۔ سروس اس شان کی کہ اشارہ کیا اور نرسیں آن موجود۔ پیچھے پیچھے کوئی ڈاکٹر چلا آ رہا ہے۔ اچھے ڈاکٹروں، حکیموں میں قدرت نے عجب صفت رکھی ہے کہ ان کے نمودار ہوتے ہی مریض کا دکھ درد جیسے غائب ہو گیا ہو۔ یا شاید اس اسپتال کے معالجوں کی رحمت کے فرشتے سے رشتہ داری ہے۔ سب سے بڑھ کر ہمارے معالج ڈاکٹر واجد حسین۔

اس شہر میں جو مختلف اسپتال ہیں وہ بالعموم غیر مسلم انسان دوست شخصیتوں کی درد مندی کا افسانہ سناتے نظر آتے ہیں۔ مگر اس اسپتال کی تاریخ کو جان کر ڈھارس بندھی ہے کہ نہیں پاکستان میں بھی ایسی انسان دوست شخصیتیں ایسی درد مند روحیں موجود ہیں جو خلق خدا کی بھلائی کے لیے ایسے رفاہی کاموں کی متحمل ہو سکتی ہیں۔ اس اسپتال کی داغ بیل ایسے ہی تین بزرگوں نے ڈالی تھی۔ یہ تھے‘ چوہدری احمد سعید کے والد‘ پیکیجز والے جناب بابر علی اور جناب نذر حسین۔ یہ تیسرے بزرگ دنیا سے سدھار چکے ہیں۔ اب ان کی جگہ ان کے صاحبزادے شاہد حسین بورڈ آف ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔ تب سے اب تک فروغ پاتے پاتے یہ بہت بڑا اسپتال بن چکا ہے اور اسی حساب سے اس نے دکھی لوگوں کے لیے پناہ گاہ کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ پتہ چلا کہ حالات جیسے بھی ہوں اور زمانہ کتنا ہی خراب ہو دنیا درد مند روحوں سے کبھی خالی نہیں رہتی۔

جو چار پانچ دن ہم نے اس شفاخانے میں گزارے اس دوران ایک اور شعبہ سے تعارف ہوا۔ اپنے کام میں نرالا شعبہ۔ نام ہے‘ ہائوس آف چیرٹی۔ یعنی ایسے غریب و معذور بچوں کا علاج معالجہ جن کا علاج پاکستان میں ممکن نظر نہیں آتا۔ آغاز اس شعبہ کا اس طرح ہوا کہ کتنے سالوں سے یہ سلسلہ چلا آ رہا تھا کہ ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار سال کے سال امریکا سے چلتی اور اس اسپتال میں آ کر ڈیڑا ڈال لیتی۔ ایسے بچوں کا علاج کرنے میں مصروف ہو جاتی، جن بچوں کے متعلق گمان ہوتا کہ یہاں بیٹھ کر ان کا علاج ممکن نہیں  ہے۔ انھیں اپنے ساتھ امریکا لے جاتی۔ وہاں علاج معالجہ کر کے ان کی شفا کی صورت پیدا کر لیتی۔ پھر انھیں ساتھ لے کر پاکستان آتی اور اب ایسے نئے مریضوں پر اپنی توجہ صرف کرتی۔

یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ بالآخر انھوں نے شالا مار سے معاملہ کر کے مستقل طور پر یہاں یہ شعبہ قائم کر لیا۔ ایک پاکستانی بی بی جو امریکا میں آباد ہو چکی ہے ان کے ہمراہ آتی ہے اس کا نام ہے حشمت طارق۔ وہ ان بچوں کے ساتھ اتنی گھل مل جاتی ہے کہ بچے سمجھتے ہیں کہ یہ بی بی ہی ہماری ماں ہے۔ اب یہاں اس اسپتال میں یہ شعبہ اس بی بی کی نگرانی میں خدمت خلق کے جذبے سے سرشار دن رات مصروف رہتا ہے۔ امریکی ماہرین آتے جاتے رہتے ہیں۔ علاج کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ رفتہ رفتہ کمسن مریضوں کی اتنی تعداد ہو گئی کہ کتنوں کو ویٹنگ لسٹ پر رکھا ہوا ہے۔

امریکا میں جس اسپتال سے اس کی وابستگی ہے اس کا نام ہے شائنر۔ وہاں ملک ملک سے آئے ہوئے یا کہئے کہ لائے ہوئے ایسے بچوں کا جو جل گئے ہیں یا بظاہر لاعلاج روگ میں مبتلا ہیں ان کا علاج کیا جاتا ہے۔ اب ان بچوں میں پاکستان کے غریب دکھی بچے بھی شامل ہیں۔

پاکستان کے غریب دکھی بچے۔ اب سے پہلے جسمانی امراض سے ان کا دکھ عبارت تھا۔ اب ہونے والی نئی وارداتیں بتا رہی ہیں کہ محض موذی امراض انھیں اپاہج نہیں بناتے۔ ہمارے یہاں تشدد کی جو آندھی آئی ہوئی ہے اب بچے بھی اس آندھی کی زد میں ہیں۔ ہم نے اس اسپتال میں ایک موقعہ پر بی بی حشمت سے رابطہ پیدا کرنا چاہا تو ادھر سے جواب آیا کہ وہ تو اپنی ٹیم کو لے کر ایک ایمرجنسی پر گئی ہوئی ہیں۔ کریدا تو اس ایمرجنسی کی تفصیل کا پتہ چلا کہ ایک کمسن لڑکے کو ظالموں نے قتل نہیں کیا۔ بس اسے اس کے دونوں بازوئوں سے محروم کر دیا ہے۔ وہ غریب اب ہائوس آف چیرٹی کی توجہ کا مرکز ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تشدد پسند خالی قتل پر قناعت نہیں کرتے۔ قتل ایسے عمل کو کب تک دہرایا جائے۔ کیوں نہ اس طرح کی اذیت دی جائے کہ آدمی جان سے بھی نہ جائے مگر عمر بھر کے لیے اپاہج ہو جائے تا کہ دشمن یاد رکھے کہ ہم اس کے ساتھ اس کے بچوں کے ساتھ اس کی عورتوں کے ساتھ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔

روز ہم ایسی خبریں اخبار میں پڑھتے ہیں‘ مختلف ٹی وی چینلوں پر ان کی جھلکیاں دیکھتے ہیں۔ پہلے کبھی کبھار کوئی ایسی خبر آتی تھی تو شہر میں سنسنی پھیل جاتی تھی۔ اب اس قسم کی خبریں ٹی وی چینلوں پر ان کی نمائش ہمارے روز مرہ میں شامل ہیں۔ یعنی اب تشدد بہیمیت کی صورت ہماری معاشرتی زندگی کا لازمہ ہے۔ یعنی اب ہم ایک تشدد پسند معاشرے کے بیچ زندگی بسر کر رہے ہیں۔

کوئی معاشرہ تشدد کو اپنا کر اس شے کو جسے انسانیت کہتے ہیں زیادہ عرصے تک اپنے بیچ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ تو کیا ہمارا معاشرہ اب تیزی سے Dehumanization کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یا یوں ہے کہ وہ سچ مچ ایک Dehumanized معاشرہ بن چکا ہے۔ ایسا معاشرہ جو انسانی اوصاف سے محروم ہو چکا ہے۔ کیا واقعی۔ چلے تھے ہم مثالی مسلمان معاشرہ بنانے کے وعدوں کے ساتھ۔ اور بن گئے کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔