رواں مالی سال ،ٹیکس خسارے میں حیران کن طور پر اضافہ
حکومت نے پیر کے روز انکشاف کیا ہے کہ رواں مالی سال میں ٹیکس مراعات کی لاگت میں حیران کن طور پر اضافہ ہوا ہے اور یہ رقم 58 کھرب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ،یہ اضافہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 20 کھرب روپے کا ہے حالانکہ حکومت نے کئی ٹیکس چھوٹ واپس لے لی تھیں۔
ڈالر میں یہ نقصان 21 ارب ڈالر بنتا ہے جو اس 17 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ ہے جو پاکستان نے اس سال چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کو تجارتی اور دوطرفہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار تھا۔
مزید پڑھیں: رواں مالی سال کے 9 ماہ میں حکومتی قرضے 76 ہزار 7 ارب روپے تک پہنچ گئے
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے جاری کردہ اقتصادی سروے 2025 میں بتایا گیا ہے کہ متعدد مرتبہ ٹیکس مراعات واپس لینے کے باوجود ٹیکس چھوٹ کا حجم ہر سال بڑھتا جا رہا ہے ان میں سے بیشتر مراعات 3مختلف ٹیکس قوانین کے تحت دی گئی تھیں اور انہیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔
اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ٹیکس مراعات کی لاگت 39 کھرب روپے تھی جو رواں سال 58.4 کھرب روپے تک پہنچ گئی ،ن لیگ کی حکومت کی جانب سے گزشتہ بجٹ میں متعدد مراعات ختم کیے جانے کے باوجود یہ اضافہ51 فیصد یا 19.6 کھرب روپے رہا۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے جب اس اچانک اضافے سے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ایف بی آر کے ایک سینیئر اہلکار کے مطابق 58 کھرب روپے کا یہ اعداد و شمار غلطی سے رپورٹ ہوا ہے اور حکومت آن لائن اپڈیٹ میں پٹرولیم مصنوعات سے متعلق چھوٹ کی مد کو علیحدہ کر دے گی۔
مزید پڑھیں: نیا بجٹ، نئے ٹیکس: کئی شعبوں پر چھوٹ ختم ! نئے ٹیکسز کن شعبوں پر لگیں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ کچھ مدات میں دہری گنتی ہوئی ہے جس کی وجہ سے غلط تاثر پیدا ہوا۔اقتصادی سروے کے مطابق، صرف سیلز ٹیکس کی چھوٹ رواں مالی سال میں 43 کھرب روپے رہی، جو گزشتہ سال کے 29 کھرب روپے کے مقابلے میں تقریباً 50 فیصد زیادہ ہے۔
پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس زیرو رکھا گیا، مگر حکومت ہر لیٹر پر 78 روپے پیٹرولیم لیوی وصول کر رہی ہے۔ اس مد میں حکومت کو 18 کھرب روپے کا نقصان ہوا، جو پچھلے سال 13 کھرب روپے تھا۔
پانچویں شیڈول کے تحت زیرو ریٹڈ اشیا پر 683 ارب روپے کی چھوٹ دی گئی جو گزشتہ سال 206 ارب تھی یعنی 232 فیصد اضافہ،چھٹے شیڈول کے تحت 986 ارب روپے کی چھوٹ دی گئی، جن میں 613 ارب روپے مقامی مصنوعات اور 373 ارب روپے درآمدی اشیا پر تھے۔
آٹھویں شیڈول کے تحت کم شرح سیلز ٹیکس سے 618 ارب روپے کا نقصان ہوا، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 259 ارب روپے زیادہ ہے۔موبائل فونز کی فروخت پر دی گئی چھوٹ 88 ارب روپے رہی،انکم ٹیکس میں دی گئی چھوٹ کا حجم بھی 801 ارب روپے تک جا پہنچا جو گزشتہ سال کے 477 ارب روپے کے مقابلے میں 68 فیصد زیادہ ہے،حکومتی اداروں کو دی گئی چھوٹ 123 ارب روپے رہی، جو 112 فیصد زیادہ ہے،مختلف الائونسز پر دی گئی چھوٹ 16.5 ارب روپے رہی جو دگنی ہے۔
مزید پڑھیں: بجٹ کا حجم 17600 ارب مقرر، دفاع، تنخواہ اور پنشن میں اضافہ تجویز
ٹیکس کریڈٹ کی مد میں 101 ارب روپے کی چھوٹ دی گئی، جو گزشتہ سال سے 75 ارب زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال میں کسٹمز ڈیوٹی میں 543 ارب روپے کی چھوٹ دی گئی تھی جو اس سال بڑھ کر 786 ارب روپے ہو گئی ،سی پیک، آئل اینڈ گیس، اور آٹو سیکٹر کو 133 ارب روپے کی چھوٹ دی گئی۔
آئی ایم ایف کی جانب سے زور دیا جا رہا ہے کہ پانچویں شیڈول کے تحت باقی ماندہ زیرو ریٹڈ چھوٹ واپس لی جائے،آٹھویں شیڈول میں شامل کم ریٹ کو 18 فیصد کے معیار پر لایا جائے۔جہاں موجودہ شرح 5 فیصد ہے، وہاں اسے دگنا کر کے 10 فیصد تک بڑھایا جائے۔