کوچۂ سخن
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل
غزل
وجد میں آیا ہوا مست خلا دیکھتا ہے
کون یوں رکھ کے تجھے تیری جگہ دیکھتا ہے
ایک بے دھیان شرارے کی لو میں الجھا ہوا
اور اک دھیان شرارت سے دیا دیکھتا ہے
شائبہ بادِ بہاری سے گلے ملتا ہوا
سر پھرا سوچ کے ہنستا ہے ہوا دیکھتا ہے
خاص ہوتا ہے تصور سے لگایا ہوا دل
آئینہ شوق سے دیکھے تو نیا دیکھتا ہے
نیند ٹوٹے تو کسی خندۂ خوش وصل کا عکس
رات بھر ہجر کے مارے کو بڑا دیکھتا ہے
ایک یہ عیش کہ وہ یاد مجھے دیکھتی ہے
دوسرا خوف کہ واعظ کا خدا دیکھتا ہے
سو گیا ہوگا کوئی نیند کا مارا ہوا ہجر
مر گیا ہوگا کوئی آنکھ میں کیا دیکھتا ہے
لوٹ جاتا ہے مرے ذہن میں آیا ہوا وہ
راستہ بیٹھ کے گلشن کی ہوا دیکھتا ہے
کتنی بے چین ہے شیشے میں اتاری ہوئی آگ
اور شوقین صراحی کا گلا دیکھتا ہے
ایک سرمست کی آنکھوں میں کوئی ڈوب گیا
ایک چالاک جو ساحل پہ کھڑا دیکھتا ہے
صابر امانی۔ سرگودھا
۔۔۔
غزل
کسی کے ہجر میں جل کر جیا ہوں
میں اک عرصہ اذیت میں رہا ہوں
یہ دنیا وہ خرابہ ہے جہاں میں
کوئی دم سانس لینے کو رکا ہوں
میں سطحِ آب پر مثلِ سفینہ
بس اپنی موج میں بہتا گیا ہوں
طنابیں کٹ چکی ہیں جسم و جاں کی
میں پھر بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہوں
توکن ہاتھوں کی ریکھا سے جڑی ہے
میں کن آنکھوںکی قسمت میں لکھا ہوں
ہوں قفلِ بے کلید اور دوست وہ بھی
کسی دروازۂ مغموم کا ہوں
مقفل ہوچکے سب درمگر میں
فصیلِ شہر کے باہر کھڑا ہوں
تو مہرو ماہ کی ہمزاد اور میں
چراغِ حجرۂ درویش سا ہوں
(ذی شان مرتضے۔پہاڑ پور)
۔۔۔
غزل
سلسلہ وار لگا تار کیا جاتا ہے
بارشِ وصل کو ہموار کیا جاتا ہے
آپ جیسوں سے محبت نہیں کرتا کوئی
آپ جیسوں کو گنہگار کیا جاتا ہے
زندگی میں سبھی ہمراز نظر آتے ہیں
رازداں کو پس دیوار کیا جاتا ہے
ایک ہی وار سے ہم ٹوٹ نہیں سکتے ہیں
ایک ہی وار لگاتار کیا جاتا ہے
اے مرے وعدہ فراموش محبت کے طفیل
ہر کسی کو کہاں سر شار کیا جاتا ہے
جس پہ امید نہیں ہوتی ثمر کی اس کو
باغِ حیرت میں ثمربار کیا جاتا ہے
مجھ کو معلوم ہے میں تنہا کھڑا ہوں لیکن
ہر کسی کو کہاں بیمار کیا جاتا ہے
بھولی بسری ہوئی یادوں کو اجاگر کرکے
ہم کو پھر آپ کا بیمار کیا جاتا ہے
وادیِ عشق میں حیرت کی فضا ہے سو ندیمؔ
چیخنے والوں کا پرچار کیا جاتا ہے
(ندیم ملک ۔نارووال، کنجروڑ)
۔۔۔
غزل
گردش میں ماہ و سال رہے ہم نہیں رہے
حسرت بھرے سوال رہے ہم نہیں رہے
چرچے رہے مثال رہے محفلیں سجی
دل میں مگر ملال رہے،ہم نہیں رہے
خوابوں میں ہم مثال بنے چاند رات کی
لیکن نہ وہ کمال رہے ہم نہیں رہے
محفل میں جب سوال ہوئے ذکر جب ہوا
وہ حسن بے مثال رہے ہم نہیں رہے
یادوں کے آئنے میں ابھرتی ہوئی لکیر
جس پر کئی خیال رہے ہم نہیں رہے
بیٹھے ہوئے راہ میں دل کو بچھا کے ہم
جیسے کہیں غزال رہے ہم نہیں رہے
پلکوں پہ اشک لب پہ دعائیں رہیں مگر
تقدیر میں زوال رہے ہم نہیں رہے
ہم درد کی مثال بنے شہر میں ہماؔ
وہ درد میں نہال رہے ہم نہیں رہے
(سیدہ ہما شاہ۔ ہارون آباد)
۔۔۔
غزل
رنگت دشت پئے افلاک بدل دیتی ہے
روشنی وقت کے اوراق بدل دیتی ہے
بدگمانی سر اجسام جنوں رہتی ہے
خوش گمانی مگر پوشاک بدل دیتی ہے
میں نے دیکھے ہیں کئی بار ہوا کے تیور
جب بھی چلتی ہے خس و خاشاک بدل دیتی ہے
بہرترتیب اترتی ہے محبت ان پر
اور پھر صورت عشاق بدل دیتی ہے
کوزہ گر باندھ کے رکھتا ہے میری مٹی کو
اور ہوا ہے کہ مری خاک بدل دیتی ہے
کتنی معصوم محبت ہے ہماری فیضیؔ
ہیئت دیدۂ نم ناک بدل دیتی ہے
(سید فیض الحسن فیضی ۔پاکپتن)
۔۔۔
غزل
میری نوازشات کی کالک سنبھالتی
کب تک وہ پہلے عشق کی عینک سنبھالتی
دل نے بھی تو سنبھالی ہے تیری انا بہت
کچھ روز یار تُو بھی یہ بالک سنبھالتی
ٹکرا گئی ناں میز سے دیکھا وہی ہوا
ساڑھی کے ساتھ کس طرح چینک سنبھالتی
دن بھر بٹاتا رہتا تھا دفتر کا ہاتھ میں
میری تھکن کو رات میں بیرک سنبھالتی
وحشت تو گھر کا فرد تھی آنگن کا درد تھی
مہمان تو نہ تھی جسے بیٹھک سنبھالتی
کوئل کو جا لگا ہے کسی بے سُرے کا تیر
پیڑوں کی نغمگی کو کہاں تک سنبھالتی
ہوتا نہ مجھ سے پار اداسی کا پل صراط
ماں کی دعا اگر نہ اچانک سنبھالتی
(احمد زوہیب۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
یہ امتحان وہ لیتا ہے شان سے پہلے
کہ دیکھتا ہی نہیں مجھ کو دھیان سے پہلے
نہ چھیڑ قصۂ فرقت کہ تیری آنکھوں نے
بیان کر دی حقیقت زبان سے پہلے
ستم ظریف بلا کی ادائیں رکھتا تھا
پڑا ہے واسطہ جس مہربان سے پہلے
یہ میرے بخت کی دیوار گر بھی سکتی ہے
مجھے لگا نہ گلے امتحان سے پہلے
کلام کر کے مکرنا ہمیں نہیں آتا
ہم اپنی آن بچاتے ہیں جان سے پہلے
چھوئے گا کون فلک وقت ہی بتا ئے گا
یہ فیصلہ نہیں اچھا اڑان سے پہلے
میں تیرا نام نہ لوں گا اے میرے یار مگر
نکال خود کو مری داستان سے پہلے
زمین پر جو تمہیں سر اٹھا کے چلنا ہے
ملاؤ ہاتھ کسی آسمان سے پہلے
دیا ہے قربتوں نے برقؔ طوقِ رسوائی
نہیں تھا غم یہ کسی راز دان سے پہلے
(بابر علی برق۔تحصیل کبیروالا،پنجاب)
۔۔۔
غزل
سحر تک اپنی قسمت کے ستارے ڈھونڈ لیتے ہیں
اندھیروں میں جو روشن ہوں سہارے ڈھونڈ لیتے ہیں
ہم ایسے ہیں کہ تنہائی ہمارا ساتھ دیتی ہے
ہم ایسے ہیں کہ صحرا میں نظارے ڈھونڈ لیتے ہیں
جنہیں ہو عشق جائے وہ کبھی ڈوبا نہیں کرتے
بھنور کی لہروں سے لڑ کے کنارے ڈھونڈ لیتے ہیں
نصیبوں کا دھنی ہوں میں وہ میرے پیچھے رہتے ہیں
میں فائدے میں جو ہوتا ہوں خسارے ڈھونڈ لیتے ہیں
نذرؔ کو بھیک مل جائے محبت کی جہاں سے بھی
جہاں بھی ہوں سخاوت کے دوارے ڈھونڈ لیتے ہیں
(نذیر احمد نذر۔ پھولنگر، قصور )
۔۔۔
غزل
اس عبادت میں خیانت نہیں ہو سکتی ہے
تم سے اُلفت میں شراکت نہیں ہو سکتی ہے
آلِ احمدسے بغاوت نہیں ہو سکتی ہے
ان یزیدوں کی حمایت نہیں ہو سکتی ہے
جا رے ملاّ یہ خرافات نہیں ہیں منظور
رب کے بندوں سے شرارت نہیں ہو سکتی ہے
تُو بدل لیتا ہے ہر روز ہی مرکز اپنا
میری اے دوست یہ عادت نہیں ہو سکتی ہے
سرکشی ہم نے غلاموں میں بھی دیکھی ہے سہیلؔ
یہ نہ سمجھو کہ بغاوت نہیں ہو سکتی ہے
(سہیل احمد سہیل۔ اسلام آباد)
۔۔۔
غزل
آشفتگی، فراق، شبِ غم، فسردگی
اب میری زندگی میں ہے پیہم فسردگی
آنے لگے ہیں پوچھنے افسردہ حال کا
اے میرے لم یزال! نہ ہو کم فسردگی
صحرا کے بیچ قیس کا نائب ہوں آج کل
دھک دھک مرا دُہل ہے، تو پرچم فسردگی
تو چھوڑ کر گیا ہے، تو کمرے میں اب بھی ہیں
لرزاں چراغ، آہ و فغاں، ہم، فسردگی
صحرا سے مجھ پہ اٹھتی رہی گردِ خامشی
افلاک سے اترتی ہے، چھم چھم فسردگی
شامِ بہار، سرد ہوا، جھیل، چاندنی
ایسے میں چاہیے مجھے، کم کم فسردگی
ثاقب ؔکو اس جہانِ فسردہ سے لے چلو
افسردگی ہے یار! دمادم فسردگی
(اقبال ثاقب۔ کوہستان ،خیبر پختون خوا)
۔۔۔
غزل
چند لمحوں کا اہتمام کرے
آ کے سانسوں کا انتظام کرے
زرد آنگن کو رنگ و بو بخشے
اور روشن اندھیری شام کرے
جس کا ہو کام دیکھنا تجھ کو
کس طرح آنکھ دوجا کام کرے
جس پہ لازم ہو تجھ بدن چھونا
کیسے وہ شخص استلام کرے
جو محبت بھی کر نہیں سکتا
وہ محبت کا احترام کرے
جسم تعمیر کر چکا ہوں پھر
پھر سے شروع وہ انہدام کرے
منتقم کیوں ہے زندگی سے وصالؔ
زندگی، زندگی کے نام کرے
(احمد وصال۔ شبقدر، مٹہ)
۔۔۔
غزل
امید کوئی، بھلا کون آپ سے رکھے
نصیب سوئے مگر نین جاگتے رکھے
لبوں پہ پھول ہیں مسکان کے، بجا لیکن
دھڑکتے سینے میں تو دل بجھے بجھے رکھے
حقیقتوں نے ہمیں بارہا ڈسا تو ہے
کہ آنکھ دشت میں سب خواب سلسلے رکھے
مداوا ہم نے کبھی ان کا چاہ کر نہ کیا
عزیز ہم نے بہت زخم آپ کے رکھے
نجانے شہر میں سب راز کیسے جان گئے
وفا میں ہم نے تو پاؤں دبے دبے رکھے
کواڑ سارے زمانے کے بند ہوتے رہے
کسی کی نیند کے قدموں پہ رتجگے رکھے
ہمارے گھر میں بھی حسرتؔ وہ ایک دن آئے
بچھائے ہم نے بھی گل، نین بھی بچھے رکھے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی