چیئرمین جنید اکبر کی حکام کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاس میں تیاری کے ساتھ آنے کی ہدایت
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس جنید اکبر کی سربراہی میں ہوا، وزارت پلاننگ ڈویژن کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس کے دوران وزارت منصوبہ بندی کی ضمنی گرانٹ اصل گرانٹ سے 134 فیصد ذیادہ سامنے آنے پر اراکین نے برہمی اظہار کیا۔
نوید قمر نے کہا کہ پلاننگ ڈویژن کی وزارت کے اعدادوشمار کی کچھ سمجھ نہیں آرہی، کیا کوئی منصوبہ بندی یا سوچ ہے؟۔
ریاض فتیانہ نے کہا کہ کیا پی اینڈ دی کا مقصد صرف مہر لگانا ہے جو حکومت کہے؟ ملک میں ہر چوتھا شخص بیروزگار ہے، انسانی ترقی کے لیے کیا کیا جارہا ہے، پنجاب میں سارے اسکول، اسپتال پرائیوٹ ٹھیکیداروں کو دیے جارہے ہیں، آخر پلاننگ ڈویژن کی کوئی سوچ اور منصوبہ بندی ہے کہ انسانی زندگی کو کیسے بہتر کرنا ہے؟
ریاض فتیانہ نے کہا کہ آڈٹ پیرا تو ایک ڈیزاسٹر ہے، اس وزارت کو تو بند کردینا چاہیے، جنید اکبر نے کہا کہ کیا آپ مانتے ہیں کہ وزارت میں مالیاتی اور انتظامی کنٹرول نہیں ہے؟ اگر وزارت منصوبہ کا یہ حال ہے تو باقی وزارتوں کا کیا ہوگا۔
خواجہ شیراز نے کہا کہ اس آڈٹ اعتراض کو منظور ہی نہ کیا جائے، جنید اکبر نے کہا کہ انکوائری کرکے ہمیں بتائیں، نوید قمر نے کہا کہ انکوائری کیا کرنی ہے، جو ہے ہمارے سامنے ہے۔
شازیہ مری نے کہا کہ آج کی کارکردگی سے وزارت منصوبہ بندی کا پتہ چل رہا ہے،
کیا کمیٹی کے اجلاس سے پہلے وزارت کو یہ سب پتہ نہیں تھا؟ ان بری روایات کو ختم ہونا چاہیے۔
جنید اکبر نے کہا کہ اس کی انکوائری کرکے ایک مہینے میں کمیٹی کو آگاہ کیا جائے، ریاض فتیانہ نے کہا کہ وزیراعظم کے ایک ایونٹ کے لئے 22 کڑور روپے کا خرچہ ہو گیا، ایسا کون سا ایونٹ تھا جس پر اتنے پیسے لگ گئے۔
خواجہ شیراز نے کہا کہ پلاننگ ڈیپارٹمنت بڑے بڑے پروجیکٹس لے کر آتے ہیں لیکن مکمل نہیں کر سکتے، ہمارا غریب ملک ہے ہم کہاں کہاں سے پیسے لے کر آتے ہیں، پھر جب سیلاب آتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ پلاننگ سے فنڈز نکال کر ادھر دے دیے۔
جنید اکبر نے پلاننگ حکام کو ہدایت دی کہ جب میٹینگ میں آیا کریں تو بریفنگ لر کر آیا کریں، ثنا اللہ مستی خیل نے کہا کہ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ آپ لوگ تیاری سے نہیں آئے، اگر لائن آف ایکشن درست نہیں ہوگی تو یہ چلتا رہے گا چئیرمین صاحب۔