سب اچھا نہیں ہے
یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت نے جن حالات میں اقتدار سنبھالا تھا وہ انتہائی مشکل اور کٹھن حالات تھے۔ ایک طرف سخت معاشی بحران اور وطن عزیز کے ڈیفالٹ ہوجانے کا خطرہ سر پر منڈلا رہا تھا تو دوسری طرف ملک کے اندر سیاسی بحران بے یقینی کی فضا پیدا کرچکا تھا۔ فروری 2024کے عام انتخابات بھی اس غیر یقینی کی فضا کو ختم نہ کرسکے تھے۔
جنھیں بڑا مینڈیٹ ملا تھا وہ اِن حالات میں عنان حکومت سنبھالنے کو تیار نہ تھے۔ انھیں خدشہ لاحق تھا کہ وہ معاشی حالات سدھار نہ سکے تو عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں ملنے والی عوامی مقبولیت اور پذیرائی سب داؤ پر لگ جائے گی اور سیاسی طور پر بہت بڑا نقصان ہوجائے گا، لٰہذا انھوں نے ان حالات میں تختہ اسلام آباد کو مسترد کردیا۔
انھوں نے اپنے لیے اس سے بڑے مینڈیٹ کا مطالبہ کردیا اور مخالفوں کو فارم 47 کی پیداوار کہہ کر اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر ڈالا۔ ملک جس معاشی بدحالی کا اس وقت شکار تھا ایسے میں دوبارہ الیکشن کروانے کا مطلب ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگانے کے مترادف تھا، لٰہذا ایک ایسے شخص کو وزارت عظمیٰ کی پیشکش کردی گئی جس کا ٹریک ریکارڈ باقی دیگر سیاستدانوں سے بہتر تھا اور جو انڈر اسٹینڈنگ کے ساتھ حکومت چلانے کی خصوصیات رکھتا تھا۔
اسے حکومت بنانے اور چلانے کے لیے تمام ضروری وسائل اور امداد فراہم کی گئی اور یوں وہ نا چاہتے ہوئے بھی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہوگیا۔ اُسے وزیر خزانہ کے لیے پاور فل شخص کی ضرورت تھی جو عالمی مالیاتی اداروں کے لیے بھی قابل قبول تصور کیا جاتا ہو۔ سو وہ فراہم کردیا گیا۔ محمد اورنگ زیب اس سے پہلے ملکی سیاست میں متعارف بھی نہیں تھے اور انھیں ہمارے عوام جانتے بھی نہ تھے۔
دنیا کی بڑی طاقتیں ہم جیسے کمزور اور نادار ممالک میں سیاسی شخصیات کے مقابلے میں ہمیشہ ٹیکنو کریٹس اور غیر سیاسی افراد کو ترجیح دیتی رہی ہیں ۔ سیاسی شخصیات کو اپنے عوام کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے اور وہ اُن کے سامنے جوابدہ بھی ہوتے ہیں، انھیں اپنی سیاسی ساکھ بھی برقرار رکھنا پڑتی ہے جب کہ غیر سیاسی شخصیات کو ایسی کسی بھی مجبوری کا سامنا نہیں ہوتا ہے۔ وہ کچھ عرصے کے لیے لائے گئے ہوتے ہیں اور پھر واپس اپنی پرانی جاب پر چلے جاتے ہیں۔
1993 میں بھی ہم نے وزارت عظمیٰ کے لیے ایسے ہی ایک انجانے شخص معین قریشی کو بھی دیکھا تھا جس کے پاس اس وقت نہ پاکستانی پاسپورٹ تھا اور نہ شناختی کارڈ۔ یہ دونوں چیزیں انھیں پاکستان میں لینڈ کرتے ہوئے فراہم کی گئیں۔ محمد اورنگ زیب کو جو ذمے داری دی گئی تھی وہ انھوں نے بہرحال پوری کردی ہے یعنی ملک کو ڈیفالٹ ہوجانے سے بچانا۔ آئی ایم ایف سے بات چیت اور سات ارب ڈالرز کا ایک زبردست بیل آؤٹ پیکیج۔ اس کام کی سرانجام دہی کے لیے انھیں عوام الناس پر ٹیکسوں کی بھرمار کرنا پڑی جو سیاسی ساکھ رکھنے والا کوئی اور شخص نہیں کرسکتا تھا۔
موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کم ہوگئی ہے، جب کہ زمینی حقائق اس کے برعکس تصویر پیش کررہے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ مہنگائی کے بڑھنے کی جو شرح 2023 میں تھی وہ اب کم ہوکر پانچ سے ساتھ فیصد ہوچکی ہے لیکن یہ نہیں ہوا کہ مہنگائی پہلے سے کم ہوگئی ہے۔ مہنگائی تو بدستور بڑھ ہی رہی ہے لیکن اس کی شرح کچھ کم ہے۔ حکومت نے بجلی کی قیمت کچھ کم کر کے جس کارکردگی کا شور مچایا تھا وہ انھوں نے پٹرول اور شوگر کی قیمتیں بڑھا کر برابر کردیا ہے۔ چینی کے نرخ بڑھانے کا جو ڈرامہ رچایا گیا تھا کہ ملک کے اندر چونکہ وافر اسٹاک موجود ہے، اس لیے اسے ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے اور پھر اسٹاک کم کر کے اب امپورٹ کی اجازت دی جا رہی ہے۔
یہ دونوں کام بظاہر عوام اور کاشتکاروں کی بہتری میںکیے گئے، مگر اس دوران چینی کی قیمت 40اور 50روپے تک چپ چاپ بڑھا دی گئی۔ عوام اس حرکت اور چال کے بارے میں پہلے ہی تشویش اور اندیشے میں مبتلا تھے لیکن حکمرانوں نے چونکہ چینی کی قیمت نہ بڑھنے کی یقین دہانی کروا دی تھی تو وہ خاموش ہوگئے تھے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے، حکومت اپنی اس یقین دہانی پر قائم نہ رہی اور اب کابینہ کے ذریعے چینی کے نئے نرخ طے کر دیے گئے ہیں۔ اس ملک میں شوگر مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ ہرچند سال بعد چاہے کسی کی بھی حکومت ہو وہ اس کے دام من مانے طریقوں سے بڑھوا لیتا ہے۔
چینی کے علاوہ پٹرول کے نرخ بھی اب مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں جب کہ عالمی مارکیٹ میں اس میں کوئی اضافہ بھی نہیں ہوا۔ لیوی کے نام پر ہماری یہ عوام دوست حکومت پہلے ہی 90 روپے فی لٹر ناجائز طور پر لے رہی ہے مگر عوام کو راحت اور ریلیف پہنچانے کا اگر کوئی موقعہ ہاتھ آتا ہے تو وہ بلوچستان میں موٹروے بنانے کے نام پر ہڑپ کرجاتی ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے عوام دیکھ رہے ہیں۔ حکومت کی اس حرکت سے اُن کے اندر بے چینی اور اضطراب بڑھتا جا رہا ہے۔
پٹرول کی گرانی سے ساری چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں۔ حکومت کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جس معاشی استحکام کی باتیں وہ کر رہی ہے وہ بھی صرف عارضی بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ کوئی نئی ملیں اور کارخانے نہیں لگائے جارہے ہیں۔ عوام کو روزگار فراہم کرنے کے کسی بڑے منصوبے پر کام نہیں ہو رہا ہے۔ پرائیوٹائزیشن کے نام پر بیروزگار ی میں مزید اضافہ ہی کیا جا رہا ہے۔ پہلے سے موجود فیکٹریوں کی بندش بھی روکی نہیں جا رہی ہے۔
زرعی میدان میں بھی ناکامیاں ابھر کر سامنے آرہی ہیں۔ گندم،کپاس اور دیگر اجناس کی پیداوار بڑھنے کے بجائے کم ہوتی جا رہی ہیں۔ کسان اور کاشت کار پریشان حال ہیں۔ دوسری طرف زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے برآمدات کے بجائے قرضوں پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ فارن ایکس چینج 20 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ہے، جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ سعودی عرب ، UAE اور چائنا سے محض دکھاوے کے لیے مستعار لیے جانے والے 8 یا9 ارب ڈالرز اگر واپس کرنا پڑجائیں تو یہ سارا خزانہ پھر سے زمین بوس ہوجائے گا۔ اس کے بعد حکومت کی کارکردگی کا سارا بھرم بھی کھل کر عیاں ہوجائے گا۔ حکومت سے مودبانہ درخواست ہے کہ وہ ’’سب اچھا ہے‘‘ سمجھ کر غلط فہمی میں نہ رہے۔
زمینی حقائق کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لے۔ اور مدح سرائی کے نشے اور سرور سے باہر نکلے۔ اس وقت کچھ بھی اچھا نہیں ہے۔ عوام اس وقت سخت مشکل اور ابتلا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آپ نے اپنے پارلیمنٹرین ساتھیوں کے مشاہرات میں تو بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے جب کہ عوام کو پٹرول میں ملنے والا ریلیف بھی روک لیا ہے ۔ اسپیکر اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ اگر 20 لاکھ کے بجائے 5چھ لاکھ پر گزارا کر لیتے تو اُن کے حالات میں کونسی کمی رہ جانی تھی۔ اس مشاہرہ کے علاوہ لاتعداد مراعات وہ ایسی لے رہے ہیں، جن کا ہمارے عوام تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں، جب کہ یہ ساری عیاشیاں عوام کے پیسوں سے کی جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ اب اگر عوام کا غیظ و غضب بے قابو ہوتا ہے تو ہم اسے روک بھی نہیں سکیں گے۔