حکمرانی کا نظام اور عوام کا استحصال

حکومت کے نظام میں عوام کے کوئی جگہ نہیں ہے، اسی لیے معاشرے میں سیاسی ،سماجی اور معاشی خلیج دیکھنے کو ملتی ہے


سلمان عابد July 22, 2025
[email protected]

پاکستان میں حکمرانی کا نظام ہمیشہ سے عوامی توقعات اور خواہشات کے برعکس عدم شفافیت اور طاقت ور طبقات کے مفادات کی ترجمانی کرتا ہے ۔ حکومت کے نظام میں عوام کے کوئی جگہ نہیں ہے، اسی لیے معاشرے میں سیاسی ،سماجی اور معاشی خلیج دیکھنے کو ملتی ہے۔

پاکستان میں جو نظام چل رہا ہے وہ ہر سطح پر اپنی ساکھ کھوچکا ہے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکمرانی کے نظام میں ہمارے مفادات کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ ہمارا حکمرانی کا نظام عام آدمی کوکسی بھی سطح پر اپنی سیاسی اور معاشی ترجیحات کا حصہ بنانے کے لیے تیار نہیں۔ عام آدمی کے معاشی استحصال ہی کو بنیاد بنا کر نظام حکمرانی چلایا جارہا ہے۔ہمارا حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مسائل مثبت طورپرحل کرنے میںناکام ہوچکا ہے یا وہ اس کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

اس وقت عام افراد کے تناظر میں پانچ مسائل سرفہرست ہیں۔اول، آمدنی اور اخراجات میں جو عدم توازن مسلسل بڑھ رہا ہے اس کی وجہ سے لوگوں کی معاشی حیثیت کمزور ہوئی ہے ۔دوئم، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، روزگار کا عدم تحفظ،سوئم، بجلی ،گیس، ڈیزل،پٹرول،ادویات ، دیگر روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ،حکومتی طے شدہ قیمتوں پر چیزوں کا نہ ملنا، چہارم، سماجی اور قانونی سطح پر عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا احساس،پنجم، اداروں اور قانون کی حکمرانی کے مقابلے میں طاقت ور افراد کی بالادستی یا ایک مضبوط مافیاز کے درمیان موجود باہمی گٹھ جوڑسمیت مختلف نوعیت پر مبنی نظام نے عام آدمی کی مشکلات میں بہت اضافہ کردیا ہے۔

اسی طرح حکومت کی سطح پر شفافیت اور احتساب کی کمزوری کے عمل نے ادارہ جاتی نظام کی مضبوطی کے عمل کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔جب لوگ ملک میں خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے تو ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ریاست میں عام آدمی کہاں کھڑا ہے ۔استحصال پر مبنی نظام کا واحد مقصد پہلے سے موجود طاقت ور افراد کو مزید طاقت دینا اور پہلے سے کمزور افراد کو اور زیادہ کمزور کرنا ہوتا ہے تاکہ کمزور لوگ معاشی بنیادوں پر موجود تقسیم پر آواز نہ اٹھا سکیں۔

اگرچہ حکمران طبقات معاشی ترقی کے ایسے اعداد وشمار پیش کرتے ہیں کہ ہم معاشی ترقی کی بنیادوں پر آگے بڑھ رہے ہیں ۔لیکن لوگوں کے معاشی حقایق کافی تلخ ہیں اور اس کا اندازہ حکمران طبقات کو بھی ہے۔ کیونکہ عام آدمی کی معاشی حالت بدلنا حکمران طبقات کی ترجیحات کا حصہ نہیں اور نہ ہی وہ اس میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں ۔اس کے مقابلے میں حکمران اشرافیہ ذاتی مفادات اور ذاتی مراعات پر توجہ دے رہی ہے۔ لوگ بجلی کے مہنگے بلوں پر پریشان ہیں مگر ان کی کوئی سننے والا ہی نہیں ہے۔

پہلے چینی امپورٹ اور پھر ایکسپورٹ کرنے کی پالیسی ہی حکمران طبقات کی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہے کہ کیسے اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ ریاستی وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہے اور کوئی ان کی جوابدہی کے لیے تیار نہیں۔بنیادی طور پر اس ملک میں ایک طبقاتی نظام ہے جہاں طاقت ور افراد خوشحال اور کمزور طبقات بدحال ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس ملک میں 44.07فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور 36فیصد افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔لیکن بدقسمتی یہ ہی ہے کہ اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ اپنی عادات کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جس سے ہماری معاشی حالات تبدیل ہونے کے امکانات کم ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ جب اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ ہی حکمران اور ریاست کے نظام کا حصہ ہو اور وہی فیصلوں کی اصل طاقت رکھتے ہوں تو پھر نظام کی شفافیت کیسے پیدا ہوگی ۔جمہوری نظام کی کامیابی کی ساکھ عام آدمی کے مفادات اور حقوق کی فراہمی سے جڑی ہوتی ہے اور اسی بنیاد پر لوگ جمہوریت سے اپنی وابستگی کو مضبوط بناتے ہیں یا اس نظام پر اپنا اعتماد ظاہر کرتے ہیں۔لوگ اپنی معاشی حیثیت کو تبدیل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس وقت بھی اگر ہم مجموعی طور پر حکومتی منصوبوں پر نظر ڈالیں تو ان کی بنیاد خیراتی منصوبوں تک محدود ہے ۔حکومت کی سطح پر سوشل میڈیا پر جاری ترقی کی شاندار مہم ہے اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقات نے اس ملک میں ترقی کا نیا جال بچھا دیا ہے ۔جب لوگ حقیقت کی دنیا میں دیکھتے ہیں تو زمین پر غربت، پس ماندگی اور محرومی کے حالات غالب نظر آتے ہیں۔

مقبول خبریں