کتب خانے
انسانی تمدن کی تاریخ درحقیقت علم، شعور اور فہم کی تلاش، ترسیل اور بقا کی تاریخ ہے۔ جس معاشرے نے علم کو قدر دی، وہاں تہذیب نے جڑیں مضبوط کیں اور جہاں علم کو مٹایا گیا، وہاں انسانی ارتقاء کے دروازے بند ہوگئے۔ اسی علمی سرمایہ کی نگہ بانی کی سب سے روشن علامت ’’کتب خانہ‘‘ ہے، جو صرف کتابوں کا ذخیرہ نہیں بلکہ انسانی فہم، فکری ارتقاء اور تہذیبی میراث کی نشان دہی کرتا ہے۔
یہاں ہم نے اس علمی و تاریخی حقیقت سے روشناس کرانے کی بھرپور کوشش کی ہے کہ انسانی تاریخ کے مشہور و معروف کتب خانے کون سے تھے، انہوں نے کن ادوار میں علمی دنیا کو سنوارا، اور آج کی جدید برقیاتی دنیا میں ایک مکمل کتب خانے کا نیا تصور کیسا ہے؟ نیز یہ بھی دیکھا جائے گا کہ کیا برقیاتی کتب خانے روایتی کتب خانوں کا نعم البدل بن سکتے ہیں؟
تاریخی پس منظر: عظیم کتب خانوں کی داستان
نینوا کا کتب خانہ
یہ دنیا کا قدیم ترین منظم کتب خانہ سمجھا جاتا ہے، جسے ساتویں صدی قبل مسیح میں آشوری فرماںروا اشوربانی پال نے موجودہ عراق کے شہر موصل میں قائم کیا۔ اس میں تقریباً تیس ہزار مٹی کی تختیاں محفوظ تھیں، جن پر قدیم مسماری رسم الخط میں علمی، ادبی اور طبی مضامین کندہ تھے۔ یہ کتب خانہ نہ صرف بابل، سومر اور اکد کی علمی روایات کا امین تھا بلکہ انسانی تحریری تاریخ کا اولین مرکز بھی تھا۔
اسکندریہ کا کتب خانہ
قدیم یونانی دنیا کا عظیم کتب خانہ، جسے تیسری صدی قبل مسیح میں مصر کے شہر اسکندریہ میں قائم کیا گیا۔ اس میں پانچ لاکھ سے زائد مخطوطات محفوظ تھے جن میں فلسفہ، ریاضی، سائنس، تاریخ، ادب، جغرافیہ اور مذاہب کے بیش بہا خزانے شامل تھے۔ بدقسمتی سے مسلسل جنگوں اور آتش زدگیوں کے باعث یہ عظیم علمی مرکز صفحۂ ہستی سے مٹ گیا۔
بیت الحکمہ (دارالحکمت)
عباسی خلافت کے عہد میں آٹھویں صدی عیسوی میں بغداد میں قائم ہونے والا یہ کتب خانہ علم و دانش کا عالمی مرکز بن گیا۔ خلیفہ ہارون الرشید اور مامون الرشید کی سرپرستی میں یہاں یونانی، ایرانی، ہندی اور رومی علوم کے عربی تراجم ہوئے۔ ریاضی، فلکیات، طب اور فلسفے کے نابغہ روزگار مسلم مفکرین جیسے الخوارزمی، الفارابی، الرازی اور ابن سینا نے یہاں گراں قدر علمی خدمات انجام دیں۔
1258ء میں تاتاری حملہ آور ہلاکو خان نے بغداد کو تباہ کیا تو یہ مرکز علم بھی دجلہ کے پانی میں ڈوب گیا۔
قرطبہ کا کتب خانہ
اندلس (موجودہ اسپین) میں خلافت بنوامیہ کے دور میں قرطبہ میں ایک شان دار کتب خانہ قائم تھا جہاں چار لاکھ سے زائد کتب اور ہزاروں قلمی نسخے محفوظ تھے۔ یہاں مترجمین، مصنفین اور کاتبین کی ایک بڑی جماعت دن رات علمی خدمات انجام دیتی تھی۔ مگر صلیبی جنگوں کے دوران یہ علمی خزانہ جلا کر راکھ کر دیا گیا۔
نالندا کی جامعہ اور کتب خانہ
ہندوستان میں واقع نالندا کی جامعہ (پانچویں صدی تا بارہویں صدی) علم و فلسفے کا مرکز اور ایک عظیم کتب خانہ بھی تھی۔ یہاں ہزاروں نایاب کتابیں محفوظ تھیں۔ لیکن بختیار خلجی کے حملے کے نتیجے میں اس عظیم ادارے کو جلا دیا گیا، اور روایت کے مطابق کئی مہینے تک کتابیں جلتی رہیں۔
روایتی کتب خانوں کی اہمیت اور زوال
یہ تمام مثالیں اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ ماضی کے کتب خانے تہذیب و تمدن کے وہ مرکز تھے جنہوں نے انسانی عقل و دانش کی پرورش کی۔ ان کے زوال نے علمی ترقی کے عمل کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا۔ جب پندرھویں صدی میں چھاپہ خانہ ایجاد ہوا تو علم کا دائرہ عوام تک پہنچا، لیکن صنعتی انقلاب اور نوآبادیاتی دور میں کتب خانوں کا اصل مقصد محدود کر دیا گیا۔
برقیاتی عہد: نیا تصور اور نئی سمت
آج ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوچکے ہیں جہاں ماضی کے کتب خانوں کی جگہ برقیاتی (ڈیجیٹل) کتب خانے لے رہے ہیں۔ یہ محض شکل و صورت کی تبدیلی نہیں بلکہ علم کی ترسیل، حفاظت اور جغرافیائی سرحدوں سے آزادی کی طرف ایک عظیم تبدیلی ہے۔
برقیاتی کتب خانہ کیا ہے؟
یہ ایک ایسا برقیاتی ذخیرہ ہے جہاں کتابیں، مقالات، تصویری مواد، آوازیں، وڈیوز، اور دیگر علمی مواد برقی شکل میں جمع کیا جاتا ہے، جس تک رسائی دنیا کے کسی بھی مقام سے کسی بھی وقت ممکن ہے، بشرطے کہ قاری کے پاس انٹرنیٹ ہو۔
عالمی سطح پر معروف برقیاتی کتب خانے
گوگل کتاب گھر منصوبہ: لاکھوں کتابیں اسکین کر کے عوامی استفادے کے لیے فراہم کی گئی ہیں۔
انٹرنیٹ محفوظ خانہ: ایک غیرمنافع بخش ادارہ جو قدیم کتب، ویب صفحات اور برقی سافٹ ویئرز کو محفوظ کرتا ہے۔
یورپین ثقافتی کتب خانہ: یورپ کی ثقافتی، تاریخی اور علمی ورثے کو برقی شکل میں محفوظ کرنے کی کوشش۔
قومی برقیاتی کتب خانہ (ہندوستان): لاکھوں طلباء و اساتذہ کے لیے سوا کروڑ سے زائد علمی مواد پر مشتمل پلیٹ فارم۔
ہاتھ ٹرسٹ ذخیرہ: بین الاقوامی جامعات کی شراکت سے لاکھوں کتب اور تحقیقی مواد پر مشتمل برقیاتی ذخیرہ۔
برقیاتی کتب خانوں کے فوائد
٭ عالم گیر رسائی: دنیا کے کسی بھی مقام سے کسی بھی وقت علمی مواد تک رسائی ممکن۔
٭ تحفظ اور بحالی:قدیم، نایاب اور ناپید کتابوں کو برقی شکل میں محفوظ رکھنا۔
٭ وسیع موضوعاتی دائرہ:مختلف زبانوں، علوم و فنون، اور تہذیبوں سے وابستہ مواد بآسانی دستیاب۔
٭ تحقیقی سہولیات: تلاش، حوالہ جات، خلاصہ سازی اور موضوعاتی تجزیے کے خودکار آلات۔
٭ ماحولیاتی تحفظ: کاغذ، روشنائی، طباعت اور نقل و حمل کے ذرائع کی بچت۔
چند سنجیدہ خدشات
٭ برقی تفاوت (ڈیجیٹل ڈوائیڈ): غریب یا دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ اور جدید آلات کی کمی، برقی علم تک مساوی رسائی میں رکاوٹ ہے۔
٭ تحفظِ مواد اور حقوق: علمی مواد کی چوری، غیرمجاز استعمال یا معلوماتی سرقہ ایک سنجیدہ چیلینج ہے۔
٭ جذباتی وابستگی اور مطالعے کا تجربہ: روایتی کتب کی مہک، لمس اور پرسکون ماحول کی جگہ کوئی برقی ذریعہ نہیں لے سکتا۔
٭ غیرمصدقہ معلومات: برقی دنیا میں مستند اور غیرمستند مواد کا امتیاز ہر قاری کے لیے آسان نہیں۔
پاکستان میں کتب خانوں کی موجودہ صورتِ حال
پاکستان میں سرکاری سطح پر کتب خانوں کی حالت افسوس ناک ہے۔ بیشتر کتب خانے بجٹ، توجہ اور وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ تاہم کچھ ادارے قابلِ تحسین خدمات انجام دے رہے ہیں:
٭ قائداعظم کتب خانہ (لاہور)
٭ سپریم کورٹ کتب خانہ (اسلام آباد)
٭ پنجاب عوامی کتب خانہ
اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا برقیاتی علمی منصوبہ: جس کے تحت جامعات کے طلباء و محققین عالمی تحقیقی مجلّات تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
مکمل برقیاتی کتب خانہ: ایک نیا تصور
ایک جدید و ہمہ جہت برقیاتی کتب خانہ درج ذیل خصوصیات پر مشتمل ہو سکتا ہے:
٭ کثیر لسانی علمی ذخیرہ
٭ خودکار تلاش و تجزیہ نظام
٭ کتب، صوتی و بصری لیکچرز، تربیتی مواد
٭ برقیاتی مطالعے کے کمرے
٭ علمی تبادلے کے فورم
٭ تحفظِ مصنف اور قارئین کے حقوق
٭ تحقیقی معاونت اور اشاعتی سہولتیں
یہ تصور بالکل ممکن ہے اگر حکومت، تعلیمی ادارے، سائنسی مراکز اور برقیاتی ماہرین اشتراک سے کام کریں۔
روایت و جدت کا امتزاج
تاریخ شاہد ہے کہ جہاں علم کو محفوظ رکھا گیا، وہاں تمدن پھلا پھولا۔ نینوا، اسکندریہ، بغداد اور قرطبہ کے کتب خانے انسانی دانش کے وہ روشن مینار تھے جنہوں نے صدیوں تک انسان کی فکری روشنی کو روشن رکھا۔ آج اگرچہ علم کا رخ برقی دنیا کی جانب ہے، لیکن ایک مکمل، موثر اور بامعنی کتب خانہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم روایتی علمی ثقافت اور جدید برقیاتی سہولیات کو یک جا کریں۔
یہی وہ سمت ہے جو نہ صرف علم کے تسلسل کو قائم رکھے گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک ایسا علمی سرمایہ چھوڑے گی جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوگا۔