مودی سرکار کا مقبوضہ جموں و کشمیر میں جمہوری ڈھانچے پر حملہ
آرٹیکل 35A کی تنسیخ کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر کا سیاسی ڈھانچہ مسلسل دباؤ کا شکار ہے اور صورتحال مزید پیچیدہ ہو رہی ہے۔ مودی سرکار کی نئی پالیسیز نے کشمیری عوامی نمائندگی اور جمہوری اقدار کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت سے متعلق اہم قانون سازی کی جا رہی ہے جس کے ذریعے مرکز کے اختیارات میں مزید توسیع دی جا رہی ہے۔ ناقدین کے مطابق ہر نیا قانون کشمیری عوام کو غلام بنانے کی بی جے پی پالیسی کا حصہ ہے، جبکہ اس اقدام سے کشمیری عوام کا مینڈیٹ براہِ راست متاثر ہوگا۔
دی وائیر کی رپورٹ کے مطابق وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں تین اہم بلز پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جن میں آئین (130ویں ترمیم) بل 2025، یو ٹی ترمیم اور مقبوضہ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ترمیمی بل شامل ہیں۔ یہ بلز کل ایوان میں پیش کیے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ترمیمی بل مرکز کو مزید اختیارات اور منتخب حکومت پر براہِ راست گرفت مضبوط کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ترمیم کے بعد لیفٹیننٹ گورنر کو وزرا کو براہِ راست عہدے سے ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا، جبکہ وزیرِاعلیٰ یا کوئی بھی وزیر پانچ سال یا زائد سزا والے جرم میں صرف 30 دن کی حراست پر بھی عہدے سے ہٹادیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں مرکزی حکومت کو وزیرِاعلیٰ اور کابینہ ارکان کو معزول کرنے کا نیا اختیار حاصل ہو جائے گا۔
یہ اقدام عدالت میں مرکزی حکومت کی جانب سے ریاستی حیثیت بحال کرنے کی یقین دہانی کے برعکس تصور کیا جارہا ہے۔ ترمیمی بل منتخب یونین ٹیریٹری حکومت کے اختیارات کم کر کے جموں و کشمیر پر مرکزی حکومت کا کنٹرول مزید مضبوط کرے گا۔
حزبِ اختلاف کے مطابق یہ بل جمہوری نظام کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ کانگریسی رہنماؤں نے بھی اسے جمہوری اقدار پر براہِ راست حملہ قرار دیا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کشمیر میں جمہوریت کے بجائے انتقام کی سیاست مسلط کر رہی ہے اور آئینی و انتظامی ترامیم کے ذریعے کشمیری عوام کا اعتماد روندتے ہوئے مقبوضہ وادی پر کنٹرول مزید سخت کیا جا رہا ہے۔