بارہ صوبے بنانے کی باتیں
msuherwardy@gmail.com
آجکل پاکستان کی ترقی میں حائل رکاوٹوں پر بہت بات ہو رہی ہے۔ ایک رائے یہ سامنے آرہی ہے کہ اٹھارویں ترمیم ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک رائے یہ آرہی ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کی موجودہ شکل ایک رکاوٹ ہے۔
کچھ لوگوں کی یہ رائے ہے کہ وفاق کمزور ہو گیا ہے، لہذا پاکستان بھی کمزور ہے۔ بہرحال مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ ایک اور رائے یوں ہے کہ جب تک پاکستان میں صوبوں کی تعداد نہیں بڑھائی جائے گی، ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ چار صوبوں میں نہ وسائل درست تقسیم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی چاروں صوبوں میں باہمی آہنگی پیدا ہو سکی ہے۔
بعض حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو صوبوں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہوگا۔ پنجاب کو تقسیم کرنے کی بہت بات ہوتی ہے۔ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں نئے صوبے یا انتظامی یونٹ بنانے کی بات ہوتی ہے۔ ایسی باتیں مسلسل ہوتی آرہی ہیں ، تاہم آج کل سیاسی باتوں کی مارکیٹ میں صوبوں کی تقسیم کا ایک نیا فامولہ گردش میں ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ ایک تھنک ٹینک نے ایک فارمولہ بنا یا ہے اور اسے سیاست کی مارکیٹ میں پھینک دیا ہے تاکہ یار لوگ بحث شروع کردیں۔اس فارمولے میں 12 صوبوں کی بات کی گئی ہے۔ دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ زیادہ صوبوں سے ملک میں نسلی ا ور لسانی سیاست کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی اور وفاق مضبوط ہوگا۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ چھوٹے صوبے بنا دیے جائیں۔ یا صوبوں کی تقیسم سے مسئلہ ہے تو چھوٹے انتظامی یونٹ بنا دیے جائیں تو ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ تقسیم، گڈگورننس اور مرکز کے ساتھ ہم آہنگی ممکن ہوگی۔ بڑے صوبے خود کو ملک سے بڑا سمجھنے لگے ہیں جب کہ چھوٹے صوبے وفاق کے ساتھ چلنے کی بات کریں گے۔
یہ دلیل بھی دی جا رہی ہے کہ بھارت، نائیجیریا اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں اس حکمت عملی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ بھارت میں نئے صوبے بنانے اور کسی ایک صوبے کو تقسیم کرنے کا عمل بہت سادہ ہے۔ وہاں وفاقی حکومت آسانی سے یہ کام کر لیتی ہے۔ وہاں بھارتی وفاق نے مشرقی پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
بارہ صوبوں کاجو ڈھانچہ سامنے آیا ہے ۔ اس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔ پنجاب کے چار حصے بنائے جائیں۔ وسطیٰ پنجاب جس کا ہیڈ کواٹر لاہور ہو، اس میں لاہور، قصور، شیخوپورہ، ننکانہ اور اوکاڑہ کے اضلاع رکھے جائیں۔دوسرا شمالی پنجاب جس کا ہیڈ کواٹر راولپنڈی ہو۔ اس میںراولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال، میانوالی، اور خوشاب کے اضلاع شامل ہوسکتے ہیں۔ تیسرا صوبہ جنوبی پنجاب ہوگا۔ اس کا ہیڈ کواٹر ملتا ن ہوگا۔
اس میں ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولپور، اور رحیم یار خان شامل ہوںگے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بہاولپور کو جنوبی پنجاب صوبے شامل کیا جا رہا ہے حالانکہ اس کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ بھی تھا۔ پنجاب اسمبلی بہاولپور کو الگ صوبہ بنانے کی قرارداد بھی پاس کر چکی ہے۔
ماضی میں جب بہاولپور ایک ریاست تھا تو رحیم یار خان اس کا مرکز تھا۔ لیکن اب بہاولپور اور رحیم یار خان کو جنوبی پنجاب میں شامل کرنے کی تجویز ہے۔ اس طرح چوتھا صوبہ مغربی پنجاب بنانے کی تجویز ہے۔ اس کا ہیڈ کواٹر فیصل آباد تجویز کیا گیا ہے۔ اس میں فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ، سرگودھا، اور بھکر شامل ہوسکتے ہیں۔ ویسے ہم نے پنجاب کی تقسیم کی بہت بات سنی ہے۔ اس لیے یہ سب تجاویز نئی نہیں ہیں۔
بلوچستان رقبہ کے حسا ب سے پاکستان کا سب سے بڑ صوبہ ہے۔ پنجاب کی تقسیم کو آبادی کی بنیاد پر کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اتنی بڑی آبادی کا صوبہ ایک کیسے ہو سکتا ہے۔ جب کہ بلوچستان کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ رقبہ بہت زیادہ ہے، اس لیے تقسیم ہونی چاہیے۔ ساحلی بلوچستان کو الگ صوبہ بنانے کی بات کی جاتی ہے۔ اس کا ہیڈکواٹر گوادر تجویز کیا گیا ہے۔ اس میں گوادر، کیچ، پسنی، اورماڑہ اور، لسبیلہ شامل ہوںگے۔
وسطی بلوچستان کا ہیڈ کواٹر خضدار، اس میں خضدار، قلات، مستونگ، آواران، اور سوراب کے اضلاع شامل ہوں گے۔ شمالی بلوچستان کا ہیڈ کواٹر کوئٹہ ہی ہوگا۔ اس میں کوئٹہ، زیارت، پشین، قلعہ عبداللہ، اور چمن شامل ہوںگے۔ بلوچستان میں چوتھا صوبہ مشرقی بلوچستان بنایا جائے گا۔ جس کا ہیڈ کواٹر ڈیرہ مراد جمالی ہوگا۔ اس میں نصیر آباد، جھل مگسی، کچھی، سبی، اور ڈیرہ بگٹی شامل ہوں گے۔ سوال یہ ہے کیا اس قسم کی تجویز سے بلوچستان میں امن لایا جا سکے گا؟ کیا وہاں گورننس بہتر ہو سکے گی ، اس کا جواب کسی نے نہیں دیا۔
خیبر پختونخوا میں دو صوبے بنانے میں کی بات کی جا رہی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس پر اعتراض ہے، یہ کم ہیں۔ یہاں مزید صوبے ہونے چاہیں۔ بہر حال تجویز یہ ہے کہ خیبر شمالی بنایا جائے۔ اس کا ہیڈ کواٹر پشاور ہوگا۔ اس میں پشاور، مردان، صوابی، نوشہرہ، چارسدہ، اور بونیر شامل ہوںگے۔ دوسرا خیبر جنوبی ہوگا۔
اس کا ہیڈ کواٹر ڈیرہ اسماعیل خان ہوگا۔ اس میں ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، کوہاٹ، ہنگو، کرک، اور بنوں شامل ہوںگے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہزارہ ڈویژن ، چترال اور کوہستان کو الگ صوبہ بنانے کی تجویز نہیں دی گئی۔ ویسے فاٹا کو بھی الگ صوبہ بنانے کی بات کی جاتی ہے۔ ویسے بھی فاٹا کے پی سے الگ ہی رہا ہے۔ اب بھی واپس وفاق کو دینے کی بہت بات کی جا رہی ہے۔ لیکن اس کو الگ صوبہ بنانے کی تجویز نہیں دی گئی ہے۔ یہ دلچسپ ہے۔
سندھ کے لیے شہری اور دیہی سندھ کی بہت بات کی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے کراچی کی محرمیاں ختم کرنے کا بھی موقع ملے گا۔ باقی صوبوں کی تقسیم کی بات کرنا جرم نہیں سمجھا جاتا لیکن جونہی آپ سندھ کی کی بات کرتے ہیں تو احتجاج شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سندھی بھائی پنجاب کی تقسیم کی بات تو بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں لیکن جب اپنی باری آتی ہے تو احتجاج شرع کر دیتے ہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں ۔ اگر پنجاب اور باقی صوبوں کی تقسیم کی بات کرنا درست ہے تو سندھ پر بھی بات کرنا غلط نہیں ہونا چاہیے۔
اب اصل سوال آتا ہے کہ یہ کیسے ہوگا؟ اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ آئین میں کوئی راستہ نہیں۔ اور مارشل لا میں ممکن نہیں۔ کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ مارشل لاء میں بھی تنازعات سے دور بھاگنے کی پالیسی ہوتی ہے کیونکہ اس سے اقتدار کو خطرہ ہوتا ہے۔ اس لیے یہ محض تجاویز ہیں، پہلے بھی آتی رہی ہیں، اب بھی باتیں ہی ہورہی ہے لیکن یہ کام کیسے ہوگا ؟کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔
نئے صوبے بنانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے‘ دنیا بھر میں ریاستیں انتظامی امور بہتر طریقے سے چلانے کے لیے نئے صوبے ‘وفاقی علاقے ‘نئے انتظامی یونٹ ‘نئے اضلاع اور تحصیلیں بناتی رہتی ہیں ۔قیام پاکستان کے وقت بھارت میں صوبوں کی جو تعداد تھی ‘آج اس سے کہیں زیادہ صوبے قائم ہو چکے ہیں ۔صوبے بنانے میں جہاں بڑی آبادی ایک عنصر ہوتا ہے وہاں زیادہ رقبہ بھی عنصر بنایا جاتا ہے جب کہ ثقافتی اور لسانی بنیادوں پر بھی صوبے بنائے جاتے ہیں۔
اس میں بہت چھوٹے چھوٹے رقبے اور آبادی پر بھی صوبے بنائے گئے ہیں۔خصوصاً پہاڑی علاقوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کلچرل تبدیلیوں کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ بھارت میں تری پورہ اور میگھالے جیسے بہت چھوٹے چھوٹے صوبے بھی موجود ہیں لیکن یہ سب کرنے کے لیے ایک وسیع پیمانے پر اسٹڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔
محض باتیں کرنے اور تجاویز دینے سے یہ کام نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ایک بڑا ہی حساس ایشو ہوتا ہے۔اس کے ساتھ لوگوں کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں ‘اس لیے پاکستان میں چاہے جتنے بھی صوبے بنائے جائیں‘ اس کے لیے باقاعدہ طور پر اہل علم خاص طور پر کلچرل‘ قوموں زبانوں اور ثقافتوں کو گہرائی سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔