ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
صوبہ سندھ میں نئے لیبرکوڈ Sindh Labor Code کا نفاذ اگر مکمل طور پر ہوگیا تو مزدوروں کو حاصل بعض حقوق بھی متاثر ہوں گے۔ مزدور رہنماؤں، انسانی حقوق کی تحریک کے کارکنوں اور یونین سازی کی اہمیت کو محسوس کرنے والے سینئر اساتذہ کی یہ متفقہ رائے ہے کہ سندھ لیبرکوڈ میں کی گئی ترامیم کو واپس نہیں لیا گیا تو سندھ میں یونین سازی کا عمل رک جائے گا۔ مزدوروں کی اجتماعی سودا کار یونینوں کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔
نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما ناصر منصور نے سندھ لیبر کوڈ کے مندرجات کا ایک نشست میں تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ لیبر کوڈ کے لیے جو مجوزہ ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے، سندھ کی بیوروکریسی نے اس ڈرافٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے نئے کوڈ کا ایسا ڈرافٹ تیار کیا جس میں مزدوروں کے اجتماعی تنظیم سازی کے حق پر قدغن لگائی گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ بین الاقوامی ادارئہ محنت کا بنیادی فریضہ مزدوروں کے حالاتِ کار کو بہتر بنانے کے لیے ارکان ممالک کی مدد کرنا، مزدوروں میں اجتماعی سودا کاری کا شعور پیدا کرنا اور انجمن سازی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہے، مگر سندھ کے لیبر ڈپارٹمنٹ کی بیوروکریسی، آئی ایل او کے افسروں کی وجہ سے سندھ میں لیبر کوڈ میں ایسی شقوں کی شمولیت پر تیار ہوئی ہے جن پر عملدرآمد کیا گیا تو ٹھیکیداری نظام اور Outsourcing System قانونی شکل اختیار کرجائے گا۔
سابق فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں پہلے ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور غیر ملکی بینکوں میں کنٹریکٹ سسٹم کا نفاذ ہوا تھا۔ بعد ازاں ملکی صنعتوں نے ملازمین کو مخصوص مدت کے لیے کنٹریکٹ پر رکھنا شروع کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیشتر صنعتی اداروں میں Outsourcing System نافذ ہوگیا۔
مزدور یونینوں نے 90ء کی دہائی سے ان دونوں نظاموں کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے کوشش شروع کردی تھی۔ چاروں صوبوں کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسے چیلنج کیا گیا۔ لیبر قوانین کے ایک سینئر وکیل کا کہنا ہے کہ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے کنٹریکٹ پر رکھے گئے ملازمین نے کنٹریکٹ سسٹم کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑا تھا۔
اس وقت کے چیف جسٹس اجمل میاں اس بارے میں ایک جامع فیصلہ تحریر کرنے والے تھے کہ سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کرنے والے مزدوروں نے اپنی عرض داشتیں واپس لے لیں، یوں کنٹریکٹ سسٹم کا قانونی جواز کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا تھا۔ اس کے ساتھ ہی Outsourcing System نے مزدور کے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کی طاقت کو سلب کردیا۔ پاکستان میں جن اداروں میں مزدوروں کو کنٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے یہ مزدور تمام قانونی سہولتوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح Outsourcing Systemمیں مزدور کو اپنے آجر کا ہی پتہ نہیں ہوتا، یوں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ یا Outservice کے نظام میں تو مزدوروں کو حکومت کی اعلان کردہ کم سے کم تنخواہ بھی نہیں ملتی۔ کنٹریکٹ سسٹم اور تھرڈ پارٹی Outsourcingنظام میں جو مزدور کام کرتے ہیں وہ نہ تو اپنے ادارہ کی یونین کے رکن بن سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی یونین بنا سکتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ 10 سے 15 سال تک کام کرنے والے مزدوروں میں سے کوئی مزدور کسی حادثہ کا شکار ہوجائے اور اس کا انتقال ہوجائے تو اس کا ادارہ جہاں وہ کام کرتا رہا اس کی کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتا۔ بہت سے صنعتی اداروں میں ان دونوں نظاموں کے تحت کام کرنے والے مزدور بیماری میں سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کے اسپتالوں میں علاج معالجہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کی پنشن اسکیم سے بھی مستفید نہیں ہوپاتے۔ یہ شق آئی ایل او کے منشور میں درج دفعات سے منافی ہے۔ مزدور رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سندھ کا لیبر ڈپارٹمنٹ صنعتی اداروں کی انتظامیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے مزدوروں کو تنظیم سازی سے روکنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
جن اداروں میں مزدور کارکن اپنی مزدور یونین بناتے ہیں۔ محکمہ لیبر اس یونین کو رجسٹر کرنے کے عمل کو اتنا گھمبیر بنادیتا ہے اور متعلقہ افسران رجسٹریشن کے کاغذات پر غیر منطقی اور عقل سے ماورا اعتراضات عائد کرتے ہیں کہ اتنی دیر ہوجاتی ہے کہ متعلقہ ادارے کی انتظامیہ کو یہ اطلاع مل جاتی ہے اور وہ ادارہ ان مزدوروں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنا شروع کردیتا ہے، چونکہ مزدور یونین کی ابھی رجسٹریشن کی کارروائی مکمل نہیں ہوئی ہوتی تو انتظامیہ کو یونین بنانے کا حق استعمال کرنے والے مزدوروں کو ہراساں کرنے کے مواقعے حاصل ہوجاتے ہیں۔ مزدور رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مزدوروں کی بہبود کے لیے قائم ہونے والے ادارے سندھ ایمپلائز سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن اور سندھ ورکرز بورڈ میں مزدوروں کی بہت کم تعداد رجسٹرڈ ہے۔
پاکستان میں 60 فیصد مزدوروں کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے اور ان میں سے 90 فیصد مزدور کراچی میں آباد ہیں، مگر مزدوروں کی اکثریت ان اداروں میں رجسٹرڈ نہیں ہے ۔ کراچی کے بعض صنعتی اداروں میں مزدوروں کو ہفتہ وار چھٹی نہیں ملتی۔ بعض اداروں میں تو مزدوروں چھٹی کرکے تو ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن HRCP سندھ چیپٹر کے وائس چیئرمین قاضی خضر نے ایک مجلس میں اس بات پر خاص طور پر زور دیا کہ حکومت کو لیبر کوڈ میں کی گئی مزدور دشمن شقوں کو منسوخ کرنا چاہیے اور مزدور دوست لیبر کوڈ تیار کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مشاورت میں شامل کرنا چاہیے اور ان مشاورتی اجلاسوں میں جن نکات پر اتفاق ہو، ان ہی شقوں کو لیبرکوڈ میں شامل کرنا چاہیے۔
معروف ماہرِ سماجیات ڈاکٹر ریاض شیخ نے سندھ لیبر کوڈ کے موجودہ ڈرافٹ کو مایوس کن قرار دیا۔ بقول ڈاکٹر ریاض شیخ کے ایسی صورتحال میں "Formal labor will turn into informal labour"۔ مزدوروں کو منظم کرنے والے ایک رہنما فرحت پرویز کا واضح بیانیہ ہے کہ تمام مزدور قوانین پر نظرثانی ہونی چاہیے۔ ایسے تمام قوانین کا خاتمہ ہونا چاہیے جو مزدوروں کو اجتماعی سودا کاری کا حق کسی صورت متاثر کرتے ہوں۔
پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے سے پنجاب اور سندھ میں مقبولیت حاصل کی تھی اور بر سرِ اقتدار آنے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے1972ء میں مزدوروں کی بہبود کے لیے بہترین قانون سازی کی تھی، مگر موجودہ پیپلز پارٹی کی قیادت کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں۔ شاید اب پیپلز پارٹی کے منشور میں ’’ استحصال کا خاتمہ‘‘ شامل نہیں ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو بقول ڈاکٹر اقبال کے آج بھی :
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات