دنیا کی سیاست کبھی کبھار ہمیں ایک تماشہ گاہ لگتی ہے۔ پردہ اُٹھتا ہے، روشنیوں کا ہالہ بنتا ہے اور دو بڑے کردار اسٹیج پر نمودار ہوتے ہیں۔ آلاسکا کی سرد فضا میں جب ولادیمیر پوتن اور ڈونلڈ ٹرمپ آمنے سامنے بیٹھے تو گویا پوری دنیا نے اپنی سانس روک لی۔ تین گھنٹے کی طویل ملاقات اور اس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس ،کسی نے کہا یہ ٹرمپ کی کامیابی ہے، کسی نے تالیاں بجائیں کہ پوتن نے میدان مار لیا۔ سفارت کاری کے ان لمحوں کو میڈیا نے اپنی عینک سے دیکھ کر فتح اور شکست کے خانوں میں بانٹ دیا۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ ان خانوں میں نہ کوئی فتح ہے اور نہ شکست، یہ صرف طاقت کی بازیگری ہے، وہ کھیل جس کے تماشائی دنیا کے عوام ہیں اور سب سے بڑا خراج ہمیشہ ان ہی سے وصول کیا جاتا ہے۔ یوکرین کے لوگ اس کھیل میں اصل میں ہارے ہیں، وہ جو روز اپنی زمین پر اپنے پیاروں کو دفناتے ہیں، جو اپنے گھروں کی اینٹوں کے ڈھیر تلے کچلے جاتے ہیں، جو ہجرت کی لکیریں اپنے ماتھے پر سجائے دربدر پھرتے ہیں۔
پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں نے سوالات کیے، لیڈران نے اپنے اپنے بیانیے پیش کیے۔ ٹرمپ کی باڈی لینگویج پر تبصرے ہوئے، پوتن کی سخت گیر مسکراہٹ پر تجزیے ہوئے۔ مگر کسی نے ان معصوم بچوں کا ذکر نہ کیا جو رات کو بمباری کے سائے میں سوتے ہیں اور صبح سویرے جاگتے ہیں تو ان کے اسکول ملبے کا ڈھیر بن چکے ہوتے ہیں۔ کسی نے ان ماؤں کی چیخوں کو یاد نہ کیا جو بیٹوں کی لاشوں کو گلے لگائے بیٹھی ہیں۔
یہ ہے ہماری دنیا کا المیہ، طاقتوروں کی ملاقات کو عظیم کامیابی اور تاریخی لمحہ قرار دیا جاتا ہے مگر عوام کی شکست و ریخت کو محض ایک خبر کی سرخی میں سمیٹ دیا جاتا ہے۔ جنگ کے دنوں میں اخباروں کے لیے یہ ڈیٹا ہوتا ہے کہ آج کتنے لوگ مارے گئے، کتنے زخمی ہوئے۔ مگر یہ ڈیٹا دراصل ٹوٹے ہوئے خواب ہیں، اجڑی ہوئی بستیاں ہیں اور آنسوؤں کی وہ ندیاں ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں کبھی ثبت نہیں ہوتیں۔
پوتن جیتے یا ٹرمپ، امریکا غالب آئے یا روس یہ سوال عام لوگوں کے لیے بے معنی ہیں، کیونکہ عام آدمی کی جیت صرف اس دن ہوگی جب گولی چلنا بند ہوگی، جب بارود کی بو فضا سے چھٹ جائے گی، جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ محفوظ چھت تلے سانس لے سکے گا۔ سیاست دان اپنے کھیل کھیلتے رہیں گے مگر اصل جیت وہی ہوگی جو عوام کے حصے میں امن کی صورت میں آئے۔
یاد کیجیے گزشتہ برسوں میں کبھی جنیوا میں مذاکرات ہوئے، کبھی پیرس میں امن کانفرنسیں ہوئیں، کبھی نیویارک میں اجلاس منعقد ہوئے۔ ہر بار یہی کہا گیا کہ اب حالات بہتر ہوں گے ’’ اب امن قائم ہوگا‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جنگ کے سوداگر امن کی زبان میں بات کرنا نہیں جانتے۔ ان کے نزدیک امن ایک کارڈ ہے جو کھیل کے کسی مرحلے پر استعمال کر لیا جاتا ہے تاکہ اپنے مفاد کی ضمانت لی جا سکے۔
یوکرین کے کسان جو اپنی زمین پر ہل چلاتے تھے، آج ان کی کھیتیاں بارود سے جل گئی ہیں۔ وہ مزدور جو فیکٹریوں میں پسینہ بہاتے تھے، آج بے گھر ہو کر سرحدوں پر پناہ ڈھونڈتے ہیں اور وہ بچے جو کبھی کھلونوں سے کھیلتے تھے، آج ان کے کھلونے ٹینک اور راکٹ کے سائے میں چھپ گئے ہیں۔ یہی وہ عوام ہیں جن کے دکھ پر کوئی پریس کانفرنس نہیں ہوتی جن کی چیخیں کسی ایوان میں بازگشت پیدا نہیں کرتیں۔
طاقت کی سیاست کا سب سے سفاک پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کی زندگی کو محض اعداد و شمار بنا دیتی ہے۔ سو ہزار مرگئے، دس لاکھ بے گھر ہوگئے ، پانچ لاکھ پناہ گزین بن گئے، یہ سب الفاظ ہیں جو رپورٹوں میں لکھے جاتے ہیں مگر ان الفاظ کے پیچھے وہ درد کون محسوس کرے جو ایک باپ اپنے بچے کی قبر پر بیٹھ کر سہتا ہے؟ وہ کرب کون سمجھے جو ایک بیوہ اپنے اجڑے آنگن میں محسوس کرتی ہے؟
دنیا کی بڑی طاقتیں اگر واقعی اپنی کامیابی چاہتی ہیں تو انھیں چاہیے کہ وہ اپنی میزوں پر رکھے نقشوں سے سرحدیں نہیں بلکہ انسانوں کے زخم دیکھیں وہ زخم جو ہر دن گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ بدنصیب قومیں جو تاریخ کے کھیل کا مہرہ بنائی جاتی ہیں، ان کے حق میں فیصلہ کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کبھی کسی کی جیت نہیں ہوتی۔ جنگ کا انجام ہمیشہ قبرستانوں کی وسعت اور انسانی دکھوں کی گہرائی میں نکلتا ہے، جو لیڈر سمجھتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے بعد فتح یاب ہوگئے، وہ دراصل خود کو دھوکہ دیتے ہیں کیونکہ اصل جیت وہ ہے جو امن لے آئے جو انسان کو زندگی کی خوشبو لوٹا دے۔
آلاسکا کی برف پوش فضاؤں میں ہونے والی یہ ملاقات تاریخ کے اوراق میں ایک باب ضرور بنے گی، مگر تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ اس دوران یوکرین کے عوام ہارتے رہے اور تاریخ یہ بھی یاد رکھے گی کہ دنیا کی خاموش اکثریت نے یہ سب دیکھا مگر وہ ان بے آواز چیخوں کا حصہ نہ بن سکی۔
کاش کہ دنیا کے رہنما یہ سمجھ سکیں کہ طاقت کے ایوانوں میں بجنے والی تالیاں اصل کامیابی کا پیمانہ نہیں ہوتیں۔ اصل پیمانہ وہ لمحہ ہوگا جب کوئی ماں اپنے بچے کو خوف کے بغیر اسکول بھیجے گی، جب کوئی کسان اپنی زمین پر بارود کے بجائے گیہوں اگائے گا اور جب کوئی مزدور اپنے پسینے سے مستقبل تعمیرکرے گا نہ کہ اپنی آنکھوں کے آنسوؤں سے تاریخ کے داغ دھوئے گا۔
اصل جیت وہ ہوگی جس دن جنگ ختم ہوگی، اس دن نہ پوتن جیتے گا نہ ٹرمپ، اس دن انسانیت جیتے گی۔