اسلام آباد:
حکومت نے معاشی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور بجٹ میں حقیقت پسندی لانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ممکنہ رعایتیں حاصل کرنے کی غرض سے تمام معاشی وزارتوں سے تجاویزطلب کر لی ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ اعلیٰ سطح پر اس جائزے کے بعدکیاگیا کہ موجودہ معاشی ڈھانچہ نہ تو خاطر خواہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کر پا رہاہے اور نہ ہی پائیدار معاشی نموفراہم کرسکتاہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے وزارتوں کے ساتھ پہلی مشاورتی نشست کی جس میں مستقبل کے لائحہ عمل پر تجاویز مانگی گئیں۔ اجلاس کامقصد یہ جانچنا تھا کہ کون سی سفارشات آئندہ بجٹ سے قبل نافذکی جاسکتی ہیں اورکن پر اگلے بجٹ کے ساتھ عمل ہوناچاہیے، مشاورت ستمبر 2027 تک جاری آئی ایم ایف پروگرام کے دائرے میں ضروری معاشی ایڈجسٹمنٹس کے تناظر میں کی گئی۔
دوسری جانب آئی ایم ایف کے موجودہ 7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کے خاتمے کے بعد پروگرام سے نکلنے کی تیاریوں پر بھی مشق شروع کر دی گئی، تاہم وفاقی وزیرمنصوبہ بندی احسن اقبال نے آئی ایم ایف سے مستقل نجات کو 2029 تک برآمدات 63 ارب ڈالر تک بڑھانے سے مشروط کیاہے،جس کیلیے چار برس میں برآمدات میں 100 فیصد اضافہ درکارہوگا۔ ذرائع کے مطابق وزارتِ خزانہ نے تمام معاشی وزارتوں کو پروفارماارسال کیاہے،جس میں پائیدار معاشی ترقی کیلیے تجاویز،ان کامیکرواکنامک تجزیہ، درکارسبسڈیز اور ٹیکس آمدن پر اثرات کی وضاحت مانگی گئی ہے، تجاویزکو حتمی شکل دے کر آئی ایم ایف کے ساتھ ویٹنگ کیلیے اٹھایاجاسکتا ہے۔
ایک دوست ملک نے بھی آئی ایم ایف میں پاکستان کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے تاکہ ترقی میں رکاوٹ بننے والے اقدامات پر نرمی حاصل کی جا سکے،تاہم حکومت کیلیے آئی ایم ایف کوقائل کرناآسان نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کے پینل کی جانب سے ایک ہزار ارب کے ٹیکس ریلیف کی تجویز دی گئی ہے،مگر آئی ایم ایف بعض معمولی ٹیکسوں میں نرمی پر بھی آمادہ نہیں۔ اسی تناظر میں پلاننگ کمیشن نے سول و عسکری قیادت کوکم معاشی نمو،کم سرمایہ کاری اور بڑھتی بے روزگاری سے آگاہ کیاہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب نے حال ہی میں معیشت کاتفصیلی جائزہ لیا،جس میں یہ سامنے آیاکہ پاکستانی صنعتوں میں برآمدات کیلیے مکمل ویلیو چین موجودنہیں اور پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں درکار ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کے فریم ورک کے تحت 12 مشترکہ ورکنگ گروپس قائم کیے جارہے ہیں۔
حکومت کاہدف ہے کہ مارچ تک یہ جائزے مکمل کرکے سعودی سرمایہ کاری لائی جائے اور فروری کے آخر میں ہونیوالے آئی ایم ایف ریویو میں کچھ ریلیف حاصل کیاجائے۔