فلسطینیوں کو نہیں اسرائیل کو نارمل بنانے کی ضرورت ہے

یہ کیسی جنگ بندی ہے جس کے سائے تلے لوگ روزانہ قتل ہو رہے ہیں۔دنیا کو پہلی بار معلوم ہو رہا ہے کہ جنگ بندی کا مطلب بمباری کا رکنا نہیں ہوتا


وسعت اللہ خان December 20, 2025

پچیس نومبر کو اسرائیلی فوج نے تل ابیب کے بن گوریان ایرپورٹ پر اسلحے سے لدی ایک ہزارویں پرواز کا استقبال کیا۔سات اکتوبر دو ہزار تئیس تا پچیس نومبر دو ہزار پچیس لگ بھگ چھبیس ماہ کے دوران اسرائیل کو ایک ہزار پروازوں اور ڈیڑھ سو بحری جہازوں کے ذریعے امریکا اور یورپ نے ایک لاکھ بیس ہزار ٹن اسلحہ پہنچایا۔

 جب غزہ میں تباہ کرنے کے لیے کچھ نہ بچا تو دس اکتوبر کو جنگ بندی ہو گئی اور اس جنگ بندی کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی کنٹرول روم غزہ سے تیس کیلومیٹر باہر جنوبی اسرائیل کی ایک یہودی بستی کریات گت میں قائم کیا گیا۔ کریات گت بذاتِ خود ایک منہدم فلسطینی گاؤں عراق المنشیہ کے کھنڈرات پر قائم ہے۔اس سول ملٹری کوآرڈینیشن سینٹر ( سی ایم سی سی ) میں بڑی بڑی اسکرینوں کے ذریعے غیر ملکی فوجی مبصر غزہ پر مسلسل نظر رکھ سکتے ہیں تاکہ وہاں پھر سے کوئی مقامی گروہ اسرائیل مخالف صف بندی کی کوشش نہ کرے۔

البتہ یہ فوجی مبصر جن میں اکثریت امریکیوں کی ہے غزہ پر اتنی گہری نظر رکھ رہے ہیں کہ انھیں جنگ بندی کو روزانہ تار تار کرنے والے اسرائیلی طیارے ، ٹینک اور ماہر نشانچیوں کی اسنائپر رائفلز بالکل نظر نہیں آ رہیں۔

یہ بین الاقوامی فوجی اہلکار غزہ کے حالات کو اسرائیلی حدود میں بیٹھ کے مستحکم رکھنا چاہتے ہیں۔ شاید انھیں غزہ کے اندر جا کر وہاں کے باشندوں سے ان کا حال پوچھنے اور کھنڈرات دیکھنے سے ڈر لگتا ہے۔ ویسے بھی جنگ بندی کے بعد شدید سرد طوفانِ بادوباراں کے تھپیڑے سہنے والے نہتے ، بھوکے ، معذور ، بیمار لوگوں سے وہ استحکام کے بارے میں کیا پوچھیں گے؟ برستے آسمان تلے سردی سے جم کر مرنے والے بچوں کے والدین کی آنکھوں میں تیرتے سوالوں کا کیا جواب دیں گے ؟

غزہ کے کھنڈر نما آسیبی شہر خان یونس کے رہائشی صحافی اور استاد احمد النجار بتاتے ہیں کہ دنیا آج غزہ کو ’’ پرامن اور مستحکم ‘‘ بنانے کی جو کوششیں اب دیکھ رہی ہے ، میں یہ تماشا بچپن سے دیکھ رہا ہوں۔غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور مصر کو الگ الگ رکھنے والی اقوامِ متحدہ کی امن بٹالین سفید گاڑیوں میں نصف صدی پہلے آئی تھی۔تب ہم بچے سمجھتے تھے کہ جب بھی اسرائیل نے حملہ کیا یہ سفید بٹالین ہماری حفاظت کرے گی۔ جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے سفید گاڑیوں میں گشت کرنے والے امن فوجیوں کی بے بسی کھلتی چلی گئی۔

جو سفید ہیلمٹ بردار خود کو اسرائیلی حملوں کی زد سے محفوظ نہ رکھ سکیں وہ بھلا ہمارا کیا تحفظ کریں گے۔پھر معلوم ہوا کہ اس بین الاقوامی امن بٹالین کا کام بس اتنا ہے کہ وہ اپنے سامنے ناچ رہی سفاکیوں کا مشاہدہ کر کے انھیں روزنامچے کی شکل دیتی رہے۔اس ’’ نیک کام ‘‘ میں مداخلت ان کے مینڈیٹ میں شامل نہیں۔

دوسری بار ہم نے بین الاقوامی امن مداخلت امریکی حمائیت یافتہ غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کی شکل میں اسی سال میں دیکھی جب امداد تقسیم کرنے کے بہانے غزہ میں چار قتل گاہیں غذائی مراکز کے نام سے قائم ہوئیں۔اس فاؤنڈیشن کے عملے نے اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کے امدادی جال میں پھانس کر چھبیس سو سے زائد بھوکے انسانوں کا شکار کیا اور دنیا یہ منظر دلچسپی سے دیکھتی رہی۔

اب وہی امریکا اپنے اتحادیوں کے ہمراہ غزہ کے امن کو مستحکم رکھنے ، خوراک و رسد کی فراہمی ، ازسرِ نو تعمیر اور اس جگہ کا مستقبل طے کرنے کے لیے تازہ دم میدان میں اترا ہے۔امریکا جس نے سلامتی کونسل میں نسل کشی روکنے کی ہر قرار داد کو ویٹو کیا۔مگر جب اس نے چاہا تو کتنی آسانی سے غزہ میں امن کو مستحکم کرنے کی قرار داد چند ہی دنوں میں منظور کروا لی۔خونریزی تو خیر کیا رکتی مگر اب غزہ کو نسل کشی کی لیبارٹری کے طور پر برقرار رکھنے اور اس میں مزید تجربات کے لیے اسرائیل کو ایک نئی بین الاقوامی چھتری میسر آ گئی ہے۔

 غزہ میں امن اور نظم برقرار رکھنے والے مقامی عناصر تو دھشت گرد قرار پائے۔ان کا خلا اب غزہ کے جرائم پیشہ گروہ پورا کریں گے اور پھر اس پٹی کو ویسا استحکام دیں گے جو اسرائیل اور امریکا کو ہمیشہ سے درکار ہے۔

سب مل کے غزہ کے لوگوں کے لیے بلاروک ٹوک انسانی امداد کا شور مچا رہے ہیں مگر کوئی اسرائیل سے نہیں کہہ رہا کہ وہ راستے کھولے۔ امن کے ان پیامبروں کو اب اس بات پر قائل کرنا بھی اہلِ غزہ کی ذمے داری ہے کہ ہمیں بھی بھوک لگتی ہے ، ہمیں بھی آٹا چاہیے۔ہو سکتا کسی دن یہ مہمان امن پسند ہماری حالت پر کچھ ترس کھا کے جیلر ( اسرائیل ) سے کہہ دیں کہ ناکہ بندی کی بیڑیاں تھوڑی سے ڈھیلی کر دو۔

یہ کیسی جنگ بندی ہے جس کے سائے تلے لوگ روزانہ قتل ہو رہے ہیں۔دنیا کو پہلی بار معلوم ہو رہا ہے کہ جنگ بندی کا مطلب بمباری کا رکنا نہیں ہوتا۔جیلر ( اسرائیل ) تو وہی رہے گا۔امن فوج اگر تشکیل بھی پائی تو بس تماشا دیکھے گی۔بالکل ویسے جس طرح نصف صدی پہلے آنے والی سفید ہیلمٹ والی بین الاقوامی امن بٹالین کو تماشا دیکھنے کی اجازت تو تھی اس میں مداخلت کی اجازت نہیں تھی۔

جس ملک ( اسرائیل ) کو امن اور جنگ بندی کے معنی سمجھانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہی ملک ان بین الاقوامی امن پسندوں کا میزبان ہے۔انھیں بس یہ دیکھتے رہنا ہے کہ غزہ کے کمسن ٹھٹھرتے بچے خوراک ، غذا ، دوا اور پناہ کی تلاش کی آڑ میں کہیں ’’ دھشت گردی ‘‘ کے بارے میں تو نہیں سوچ رہے۔

اسرائیل جنگ بندی کے منہ پر دن رات بارودی طمانچے مار رہا ہے مگر سارا زور غزہ کو اسلحے سے پاک کرنے پر ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ جن ممالک نے اسرائیل کو دانتوں تک مسلح کیا اور اپنے اسلحے کے تجربات غزہ کے مکینوں پر دیکھے اب وہی ممالک امن کی ٹوپی پہن کے سب پہلے جیسا ٹھیک ٹھاک کرسکیں۔

یہ خواب نہیں بلکہ خود سے نظریں چرا کے اپنے ہی احساسِ جرم پر سفید رنگ پھیر کے دکھایا جانے والا سراب ہے۔غزہ کو کوئی مسلط امن نہیں بلکہ سانس لینے اور زندہ رہنے کی لگژری درکار ہے۔اسے دنیا کی دو رخی سرپرستی نہیں انصاف چاہیے۔استحکام تب آ سکتا ہے جب دنیا اسرائیلی تشدد کا ہاتھ جھٹکے نہ کہ اس تشدد کا نشانہ بننے والوں کی کوتوال بنے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

مقبول خبریں