احتساب

سرکاری بااختیار عہدوں میں تعیناتی کے دوران غیر قانونی اقدامات اور ناجائز مفاد حاصل کرنا عام ہے


محمد سعید آرائیں December 20, 2025
[email protected]

ملک میں پہلی بارآئی ایس آئی کے سربراہ کا احتساب کیا گیا ہے ، جو ایک اچھی بات ہے ،ایسا کرکے قانون کی بالادستی قائم کی گئی ہے،اور یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ کوئی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز شخص قانون سے بالاتر نہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید آئی ایس آئی میں دو اہم عہدوں پر تعینات رہنے کے بعد پشاور اور بھاولپور کے کورکمانڈر بھی رہے اور اگر پی ٹی آئی کی حکومت رہتی تو توقع تھی کہ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بعد پاک فوج کے سربراہ بن سکتے تھے کیونکہ سابق وزیر اعظم اپنے کسی پسندیدہ شخص کو مستقبل کا آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔

سابق وزیر اعظم کی خواہش تھی کہ وہ 2023 کا الیکشن نہ صرف آسانی سے جیت کر دوبارہ وزیر اعظم بن جائیں بلکہ اقتدار کے دس سال پورے ہونے کے بعد وہ 2028 کے الیکشن میں اپوزیشن کا مکمل صفایا کرکے تیسری بار بھی وزیر اعظم بن جائیں۔ اگر ایسا ہو جاتا تو وہ آئین میں مرضی کی ترامیم کراتے اور ملک میں پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذ کرکے صدر مملکت کی کوشش کرتے۔ اب اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ ہر اعلیٰ عہدے پر اپنی پسند کی شخصیت کو فائز کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ رہے اور وہ بآسانی اپنے سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھا سکیں۔

سابق وزیر اعظم جو 2018 میں غیبی قوتوں کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے اور اپنی حکومت اور فوج کو ایک پیج پر ہونے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے اور اپنے آمرانہ مزاج کے باعث فوجی معاملات میں بھی مداخلت کرنے لگے تھے اور جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی سربراہ کے عہدے پر رکھنے کے خواہاں تھے مگر ان کی اس خواہش کی تکمیل میں رکاوٹیں آنا شروع ہوگئیں ،اور وہ اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے۔ غیبی قوتوں نے نواز شریف حکومت ختم کرا کر پی ٹی آئی کے بانی کو اقتدار دلایا تھا ۔

ملک میں بعض سول سرکاری اداروں میں وردی لازمی ہے جس کی وجہ سے ان چھوٹے اداروں کے اہلکار بھی خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتے اور خود کو ملک کی اعلیٰ ترین مخلوق سمجھ لیتے ہیں اور رعونت کا نشان بن جاتے ہیں کیونکہ ان کا تعلق برائے راست عوام سے ہوتا ہے اور ان کے پاس اختیارات بھی ہوتے ہیں۔ پولیس عوام کی حفاظت کے نام پر اور دیگر اداروں والے اختیارات اور عہدے کے نام پر ٹیکس وصولی پر مامور ہیں اور بعض کی اپنی جیلیں جنھیں عقوبت خانے بھی کہا جاتا ہے جو ٹیکس وصولی سے زیادہ ان کی ذاتی کمائی و رشوت کا ذریعہ ہیں اور عہدے اور اختیارات کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے جس سے حکومت کی آمدنی برائے نام اور ان عہدے والوں کی کمائی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔

صوبوں میں پولیس اور ایکسائز پولیس اور وفاق میں سینٹرل ایکسائز پولیس، کسٹم سے ایف آئی اے تک اہلکاروں کا عوام سے برائے راست تعلق ہوتا ہے ، آئین و قانون کے مطابق ان کے فرائض مقرر ہیں ، انھیں ذمے داریاں سونپی جاتی ہیں لہٰذا ان کا عوام سے واسطہ پڑتا ہے ، ایف آئی اے سے ایکسائز پولیس میں برائے نام ہی ڈسپلن ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ ادارے سپاہی سے لے کر اپنے اعلیٰ افسر تک اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کرکے عوام کے ساتھ بدتر سلوک پر اترے ہوئے ہیں کیونکہ وہاں کوئی احتساب نہیں ہوتا صرف شکایتوں پر کارروائی شروع تو ہوتی ہے مگر عبرت کا نشان کوئی نہیں بنایا جاتا۔

سرکاری بااختیار عہدوں میں تعیناتی کے دوران غیر قانونی اقدامات اور ناجائز مفاد حاصل کرنا عام ہے۔ دوسروں کی زمینوں اور جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے، اپنوں کو مالی فوائد پہنچانا اور رشوت تو عام بات ہے مگر عہدوں پر رہ کر اپنے مستقبل کی بہتری کے لیے مختلف کاروبار بھی کیے جا رہے ہیں۔ کراچی کے ایک ایس ایچ او نے 19 لاکھ روپے کا ایک تاجر سے کپڑا لے کر اسے جعلی پے آرڈر دیا اور شکایت کرنے پر تاجر پر منشیات کا مقدمہ بنا دیا، جس پر سندھ ہائی کورٹ سے نوٹس بھی جاری ہو گئے ہیں ۔

یہ ایک مثال ہے کہ بااختیار عہدے پر رہ کر ہر غیر قانونی کام کرو اور عہدے کو اپنی ڈھال بنا کر محفوظ بھی رہو تاکہ دوسرا عام آدمی مرعوب رہے جب تک اسے عہدے پر فائز رہنے کا قانونی حق حاصل ہے۔ غیر قانونی مراعات حاصل کرنے والے بااثر افسر کا احتساب یہ مثال قائم کرتا ہے کہ دوسرے بھی ہوشیار رہیں اور اپنے عہدوں سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں۔ فیض حمید کے احتساب نے ملک میں دیگر عہدوں پر فائز بڑوں کے احتساب کی راہ کھول دی ہے اور اب ہر ایک کو خوف لاحق رہے گا کہ اگر اس نے کوئی غیر قانونی کام کیا تو اب وہ بھی محفوظ نہیں رہے گا اور اسے بھی احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مقبول خبریں