عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ کی رپورٹس اور بارشوں سے نقصانات
عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے 2027تک حقیقی شرح نمو 3.5 فی صد ہونے کی توقع ظاہرکی ہے۔ بلو مبرگ نے شرح سود میں کمی کی امید جگا دی ہے۔
مہنگائی 6 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 0.3 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کردیا ہے۔ ایسا معلوم دے رہا ہے کہ عالمی ادارے پاکستانی کی شرح سود، بینک کے قرضہ جات کے کردار، جی ڈی پی اور کرنٹ اکاؤنٹ اور دیگر کئی باتوں کو لے کر ایسا منظر نامہ ترتیب دے رہے ہیں جس میں سب کچھ اچھا ہے، لیکن آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا اور پنجاب کے کئی علاقوں میں پہاڑوں میں، وادیوں میں وہ بارشیں ہورہی ہیں، کس کس طرح سے گلیشیئر پگھل رہے تھے اور کلاؤڈ برسٹ کے دل دھلادینے والے مناظر جنھوں نے اربوں کھربوں کی معیشت کو خاک میں ملادیا ہے، ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ وہاں کھیت کچلے جارہے ہیں، پل ٹوٹ رہے ہیں۔ ابھی قیامت رکی نہیں کیوں کہ ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ ابھی بارشوں کے کئی اسپیل باقی ہیں۔
ایک طرف عالمی اداروں کی خوشنما رپورٹیں، دوسری طرف صوبہ خیبرپختونخوا کی زمین پر اندھیروں کا میلہ، پانی کا شور اور معیشت کی کرچیاں، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر جو کاغذی خوش حالی بیان کی جارہی ہے اس کے نیچے کیچڑ میں حقیقت موجود ہے۔ یہ برسات، یہ طوفان، یہ سیلاب جب گزر جاتا ہے تو گلیاں ، محلے، سڑکیں اونچی کیچڑ کی سطح تک لت پت ہوجاتے ہیں۔
ادھر عالمی ساھوکاروں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ شرح سود میں کمی کے ساتھ بینک سودی قرضوں کا کاروبار بڑھاسکتے ہیں لیکن بہت سے عالمی، صنعتی قوتوں کے باعث عالمی موسمیاتی تبدیلی کا سارا نزلہ اس لیے پاکستان پر گررہا ہے کہ اس میں پاکستان کا کوئی حصہ نہیں۔ عالمی موسمیاتی ماحول کو بگاڑ کر تبدیل کرنے کا سہرا صنعتی ملکوں کے سر پر ہے لیکن پاکستان شدید متاثر ہورہا ہے۔یہ قدرتی آفات پاکستانی کی معیشت کو بہا کر لیے چلے جا رہے ہیں، اس وقت صوبہ خیبرپختونخوا کی زراعت، تجارت اور معیشت پر لگنے والے زخم کئی برسوں تک بھرنے والے نہیں۔
عالمی ادارے معیشت کو خوابوں کی سند پر دیکھ رہے ہیں اور بارشیں اس معاشی خواب کو کیچڑ میں گھسیٹ رہی ہیں کیونکہ ایک طرف سیلاب کے اثرات اور 3.5 فیصد معاشی نمو کی پیشن گوئی، دوسری طرف کھربوں کا نقصان، پاکستان کو اکیلے ہی اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دیاگیا ہے۔ کئی علاقوں میں بڑے بڑے پتھروں کے نیچے مکانات دب گئے ہیں۔ پاکستان کے پاس ایسے وسائل نہیں ہیں جو کہ ٹوٹی سڑکوں، دشوار گزار راستوں اور تمام رکاوٹوں کو عبور کرکے جائے حادثہ پر پہنچے۔ ملبے تلے دبے انسانوں کو وہاں سے نکال کر دم لے۔
عالمی ترقی یافتہ ممالک کو معلوم تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک میں سرفہرست آچکا ہے لیکن اس قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو نہ مشینری دی گئی، نہ تیکنیکی سہولیات، نہ ہی مصیبت زدوں کو اپنی مدد آپ کرنے کی تربیت، نہ وسائل، انتہائی مشکل ترین حالات میں ہیں متاثرہ عوام، ایسے میں ہمیشہ کی طرح پاک فوج کے جوان، پاک فضائیہ کا عملہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہیں۔
ٹوٹے پلوں کی فوری مرمت بھی ہورہی ہے، سڑکیں بھی ٹھیک کی جارہی ہیں ، امداد پہنچائی جارہی ہے۔ خوراک کا انتظام کیا جارہا ہے۔ صوبائی انتظامیہ بھی فعال نظر آتی ہے لیکن ایسی مشینریاں یا وسائل نہیں ہیں کہ بہہ کر جانے والے گم شدہ افراد یا لاشوں کو فوراً تلاش کرلیا جائے۔ بڑے بڑے پتھروں کے نیچے دبے ہوئے افراد کو فوراً نکال لیا جائے لہٰذا حکومت اس جانب فوری توجہ دے اور ان قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت کے حصول پر بھی کام کا آغاز کردے اور ترقی یافتہ ممالک سے جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کرے اور تربیت بھی۔
ان قدرتی آفات کا سلسلہ چل رہا ہے کہ اب جاکر اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ مدد کے لیے تیار ہے، ادھر ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی، مشینریاں بھی نہیں ہیں۔ بات جب تھی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ہوکر صنعتی ممالک کے ساتھ اقوام متحدہ پہنچ ہوتا اور زندہ درگور افراد کو نکال لیا جاتا، اب یہ کام پاکستان کو اپنے ہی وسائل اپنے لوگوں سے رقوم لے کر جیسا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ کابینہ کی ایک ماہ کی تنخواہ خیبرپختونخوا کے سیلاب متاثرین کو دیں گے۔ اسی طرح اپنے وسائل ذرایع خود پیدا کریں اور ان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی ، لوگوں کی تربیت اور دیگر بہت سے امور کا خیال کرنا ہوگا تاکہ ہم بحیثیت مجموعی طور پر پوری قوم اﷲ تعالیٰ سے معافی اور مدد مانگ کر ان قدرتی آفات سے نمٹنے کے لے ہمہ وقت تیار رہیں۔