اس وقت میرے ہاتھ میں مشہور مورخ،محقق اور اسکالر ول ڈیورانٹ کی عظیم تالیف’’دی ہسٹری آف سوئیلائزیشن‘‘ کی پانچویں جلد کا اردو ترجمہ پڑا ہے جو یاسرجواد کا ایک اور کارنامہ ہے۔
یاسر جواد کے بارے میں پہلے بھی میں نے بتایا ہے کہ یہ ’’اک آدمی ‘‘ اکیلے اکیلے اتنے کارنامے کرچکا ہے جو کئی کئی سرکاری’’اک آدمیاں‘‘ نہیں کرپائی ہیں بلکہ میں اکثر حیران ہوتا رہتا ہوں کہ کیا یہ یاسر جواد کوئی ایک آدمی ہے یا اس کے اندر کئی کئی ’’اکادمیاں‘‘کام کررہی ہیں۔حالانکہ سرکاری اکادمیوں کی روایت کام نہ کرنے کی ہے لیکن یہ ’’اک آدمی‘‘ صرف کام کرتاہے اور کام کے سوا اور کچھ نہیں کرتا۔بقول اکبر الہ آبادی، ہماری باتیں ہی باتیں ہیں ’’سید‘‘ کام کرتا ہے۔
یہ بات بھی میں بلاخوف و تردید کہیں کرچکا ہوں کہ اس ’’اک آدمی‘‘ نے جس کا نام یاسرجواد ہے اردو زبان کو اتنا مالا مال کیا ہوا ہے کہ بے شمار اکادمیاں بے حساب فنڈز پھونک کر بھی نہیں کرپائی ہیں۔انگریزی اور دوسری زبانوں سے اتنے ہیرے موتی اس اک آدمی نے اردو کی مانگ میں بھرے ہیں کہ
ترے جواہر ظرف کلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوج طالع لعل وگہر کو دیکھتے ہیں
دنیا کی چنی ہوئی بے شمار کتابوں کے تراجم سے اس نے اردو کو مالا مال کیا ہوا ہے کہ اردو کو ہم دنیا کی امیرترین زبانوں میں شمار کرسکتے ہیں بقول مرشد
گوہر کو عقد گردن خوبان میں دیکھنا
کیا اوج پرستارہ گوہر فروش ہے
یاسر جواد کے تراجم بے شمار ہیں لیکن اب کے جو اس نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے اس سے اردو زبان کا سارا ڈول سنگار مکمل ہوجائے گا۔ول ڈیورانٹ کی یہ کتاب دی ہسٹری آف سوئیلائزیشن دراصل اس دنیا اور نوع انسانی کی مکمل تاریخ ہے۔ہر ہر قدم پر اس نے کیا کیا کٹھنائیاں بھوگی ہیں کیا کیا سختیاں جھیلی ہیں کن کن آگ کے دریاؤں سے ڈوب کر نکلا ہے اور پھر اور کس کس دریا کا سامنا اس نے کیا ہے
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
کس کس جابر،خونخوار اور درندے نے اسے کس کس طرح لوٹا کھسوٹا ہے کاٹا ہے نچوڑا ہے اور کس کس مہربان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ہے سینے سے لگایا ہے اور سیدھے راستوں پر چلایا۔کتاب میں دنیا کا ایک بھی ایسا کونا نہیں چھوڑا گیا جہاں انسان نے زندگی بسر کی ہو۔ اب تک یاسرجواد نے جن جلدوں کا ترجمہ کیا ہے ان میں ایشیائی اقوام،یونانیوں،رومیوں وغیرہ کی تاریخ و تہذیب پر مبسود روشنی ڈالی گئی۔
اس پانچویں جلد کا عنوان ہے حیات نو۔اس میں نشاۃ ثانیہ کے ہر ہر پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔مطلب یہ کہ یاسرجواد نے ہم جیسوں کے ہاتھ میں ایک جام جہاں تھما دیا ہے جس میں ہم ابتدائے افرینش سے لے کر آج تک کا سب کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ایک اور بات جس سے بے حد خوشی ہوئی کیونکہ مجھے خود یہ مسئلہ درپیش رہا ہے کہ لکھنے والے کتاب لکھ تو سکتے ہیں لیکن اسے پڑھنے والوں تک کے جو مراحل ہیں یعنی طباعت و اشاعت کے اخراجات۔وہ اس کی استطاعت سے باہر ہوتے ہیں پبلشروں کی اپنی ایک الگ تجارتی دنیا ہے یہ مگر خوش قسمتی سے، اور میں اسے یاسرجواد کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کی خوش قسمتی کہوں گا کہ ان کو ایسے لوگ مل گئے ہیں جنھوں نے طباعت و اشاعت کاکام اپنے ذمے لے لیا ہے۔
بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ بھی خوش قسمت ہیں کہ اس کام میں انھیں مدد کی توفیق بھی ملی اور دل بھی ملا۔مثلاً زیر نظر جلد کی اشاعت میں ڈاکٹر کلیم احمد نے تعاون کیا ہے اس طرح پچھلی جلدوں کے اور آیندہ آنے والی جلدوں کے معاونین کو یہ سعادت ہوئی ہے مجموعی طور پر ادارے کا نام’’لوٹس پبلی کیشن‘‘ ہے۔اس سلسلے کے بارے میں خود ول ڈیورانٹ نے لکھا ہے کہ یہ جلد اپنی جگہ مکمل ہوتے ہوئے بھی تہذیب کی اس تاریخ میں پانچواں حصہ ہے جو انسانی سرگرمی کے تمام شعبوں کو ایک بیانیے میں متحد کرنے کے جامع طریقہ کار کے تحت لکھی گئی ہے۔
اس سیریز کا آغاز(1935)میں ’’ہمارا مشرقی ورثہ‘‘ سے ہوا، یہ مصر، مشرق قریب اور مشرق وسطی کی323قبل مسیح اور ہندوستان چین اور جاپان کی 1930تک کی تاریخ ہے۔ جلد دوم(قدیم یونان) میں یونانی تاریخ وثقافت کے آغاز سے رومن تسخیر تک بیان کی گئی ہے، جلد سوم میں روم کا عروج و زوال مرکزی محور ہے اور مسیحیت سے پہلی کی تین صدیوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔چوتھی جلد’’عصر ایمان‘‘ نے کہانی کو 1300تک پہنچایا جس میں بازنطینی، اسلام،یہودیت اور لاطینی مسیحی دنیا شامل ہے۔ زیرنظر پانچویں حصہ کا مقصد’’نشاتہ ثانیہ‘‘ میں اٹلی کے انسانی زندگی کے تمام مراحل کا احاطہ کیا گیا ہے۔
1904میں پیٹراک کی پیدائش سے لے کر 1576 میں نیشن کی وفات تک۔کتاب کی اہمیت کا اندازہ تو ہوگیا ہے کہ مجموعی طور پر اسے اس کرہ ارض یا بنی نوع انسان کی تاریخ کہا جاسکتا ہے لیکن ساتھ ہی ایک خاص بات یہ ہے کہ یاسرجواد کے ترجمے پر تصنیف کا گمان ہوتا ہے اس مشکل انگریزی الفاظ اور اصطلاحات کو اردو کا بہت ہی خوبصورت جامہ پہنا کر’’مقتدرہ‘‘ کا بھی سارا کام کیا ہے۔