آسٹریلیا میں مسجد کی بے حرمتی؛ دیوار پر نازی نشان اور توہین آمیز چاکنگ

آسٹریلیا میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات تشویشناک ہیں


ویب ڈیسک December 19, 2025
رات گئے نقاب پوش شخص نے مسجد کی دہوار پر توہین آمیز چاکنگ کی

آسٹریلوی ریاست کوئنزلینڈ کے علاقے برسبین کی ایک مسجد کی دیوار پر شر پسندوں نے نازی نشان اور نفرت انگیز نعرے لکھ دیئے جس سے مسلم برادری میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ برسبین کے شمالی علاقے بالڈ ہلز میں پیش آیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مسجد کی دیوار پر اسپرے پینٹ سے نازی نشان کے علاوہ توہین آمیز نعرے لکھے گئے، جن میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کھلی نفرت کا اظہار کیا گیا۔

ابتدائی معلومات کے مطابق یہ کارروائی بدھ کی رات 8 بجے سے جمعرات 18 دسمبر کی صبح 3 بجے کے درمیان کسی نامعلوم شخص نے کی۔

یہ نفرت انگیز تحریریں مسجد کے نمازیوں نے جمعرات کی علی الصبح فجر کی نماز کے وقت دیکھیں، جس کے بعد پولیس کو اطلاع دی گئی۔

سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک نقاب پوش شخص کو مسجد کی دیوار پر اسپرے پینٹ کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

بعد ازاں مسجد کی دیوار کو بورڈ لگا کر ڈھانپ دیا گیا۔ مسجد کے ترجمان نے واقعے کو تشویشناک اور تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات دل آزاری کا باعث ہوتے ہیں۔

بالڈ ہلز مسجد کے امام عبدالصالح نے کہا کہ کمیونٹی اس واقعے پر شدید غمزدہ اور مضطرب ہے۔ نفرت، دھمکی اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی کی آسٹریلوی معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ مسجد گزشتہ تقریباً 30 برسوں سے مقامی کمیونٹی کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کیے ہوئے ہے اور ان کا پیغام غصے کے بجائے اتحاد اور یکجہتی کا ہے۔

کوئنزلینڈ اسمبلی کی پہلی مسلمان رکن بسما آصف نے بھی اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ آسٹریلیا میں مسلسل بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا اور نسل پرستانہ واقعات سے تنگ آ چکی ہوں۔ اس معاشرے میں نفرت اور تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں۔

آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ نے بھی بسما آصف کے بیان کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ نفرت پھیلانے والوں کو ہمیں تقسیم نہیں کرنے دینا چاہیے۔

کوئنزلینڈ پولیس کے سپرنٹنڈنٹ کرس ٹوہی نے کہا کہ ریاست اور پورا آسٹریلیا ایک کثیرالثقافتی معاشرہ ہے اور کسی بھی مذہب یا ثقافت کے خلاف نفرت یا دھمکی برداشت نہیں کی جائے گی۔

انھوں نے بتایا کہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں تقریباً 400 افراد کی آمد ہوئی جن کی حفاظت کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے تھے۔

کوئنزلینڈ کے وزیرِ صحت ٹِم نکولز نے کہا کہ ریاست میں نفرت کی علامتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔

یاد رہے کہ کوئنزلینڈ میں گزشتہ سال عوامی مقامات پر نازی علامتوں کی نمائش کو قانوناً جرم قرار دیا جا چکا ہے جبکہ حکومت دیگر نفرت انگیز نشانات پر پابندی بڑھانے پر بھی غور کر رہی ہے۔

یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے ساحل پر یہودیوں کی مذہبی تقریب میں بھارتی باپ بیٹے نے اندھا دھند فائرنگ کرکے 15 کو ہلاک اور 40 کو زخمی کردیا تھا۔

جوابی فائرنگ میں حملہ آور باپ ساجد اکرم مارا گیا جب کہ بیٹے نوید اکرم کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ 

ایک حملہ آور کو اپنی جان پر کھیل کر روکنے والے مسلم پھل فروش کی جرات اور بہادری کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔

احمد الاحمد اس وقت اسپتال میں زیر علاج ہے اور ان کے علاج کے لیے لاکھوں ڈالرز جمع ہوچکے ہیں جب کہ ایک امریکی بزنس مین نے ملین ڈالرز انعامی رقم کا بھی اعلان کیا ہے۔

 

 

مقبول خبریں