فلیش فلڈز،آفتیں تباہ کاریاں
gfhlb169@gmail.com
خیبر پختون خواہ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے بہت سے مقامات پر قیامتِ صغریٰ بپا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے شدید متاثرہ علاقے ایک انسانی المیے سے دوچار ہیں، تباہی اس قدر زیادہ ہے کہ گمان سے بھی باہر ہے۔ لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ اعلانات ہو رہے ہیں کہ کفن کم پڑ گئے ہیں،قبر کھودنے کے لیے ہاتھ کم پڑ گئے ہیں۔
ہمارے ہاں کلائیمیٹ چینج کی وجہ سے بہت تیز بارش،کلاؤڈ برسٹ،فلیش فلڈز اور لینڈ سلائیڈنگ ایک معمول بنتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی بے تحاشہ بڑھ گئی ہے اور ہم اس کی طرف سے غافل ہیں۔بڑھتی آبادی کی وجہ سے کھیت کھلیان ختم ہو کر کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
لہلہاتے سبز کھیت نگاہوں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو رہے ہیں۔زمینیں مہنگی اور نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ایسے میں لوگوں نے پانی کی گزرگاہوں پر قبضے کر کے ان کو ختم کر دیا ہے یا پھر یہ گزرگاہیں بہت تنگ ہو چکی ہیں، ہزاروں سالوں سے پانی کے بہاؤ کے جو راستے تھے وہ غائب ہو گئے ہیں۔دریاؤں ،ندی نالوں میں گندگی پھینکی جا رہی ہے جس سے دریا اور نالے پرتعفن ہو گئے ہیں۔ہم تو ساحلِ سمندر کو بھی نہیں بخشتے۔ خوبصورت ریتلے اور صاف ساحل پر کچرا پھینک آتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں بارش کے بعد پانی ٹھہرتا نہیں۔یہ پانی فوراً بہہ نکلتا ہے۔ڈھلوان پر بہتے پانی کی رفتار میں ہر گزرتے لمحے تیزی آتی جاتی ہے۔ پانی جتنا تیز بہے گا اس کی تباہی پھیلانے کی قوت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ہر تھوڑے عرصے بعد ایک نیا سانحہ،ایک نئی آفت،ان گنت لیکن انتہائی قیمتی جانوں کا ضیاع۔کبھی سوات کی وادی سوگ میں ڈوبی تو کبھی گلگت بلتستان کے پہاڑوں نے سیر کرنے والوں کو واپس نہیں آنے دیا۔جہاں کبھی سیاح خوشبو اور فریش ایئر کا مزہ لینے جاتے تھے وہاں اب خاموشی اور قبرستان کا سکوت ہے ۔
یہ خوبصورت زمین،یہ پہاڑ ،یہ دریا ہمارے ہیں لیکن ہم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔بے اعتناعی،غفلت اور حد سے بڑھی ہوئی حرص و ہوس کھل کر کھیلی۔نتیجہ یہ ہے کہ فطرت ہمارے خلاف ہو گئی ہے اب دریا اور ندی نالوں کے کناروں سے کافی اندر تک مکان، مارکیٹیں،ریسٹورنٹس اور دکانیں بن گئی ہیں جس سے دریا کا پاٹ اور ندی نالوں کی گزر گاہیں تنگ ہو گئی ہیں۔پانی کو تو اپنا راستہ بنانا ہی ہوتا ہے۔ترکیہ کی کہاوت ہے کہ دریا ایک سانپ کی مانند ہے اور پتھر اس کے انڈے۔دریا یا پانی سو سال بعد بھی اپنے انڈے سینکنے آ سکتا ہے،اس لیے دریا کی حدود میں تجاوزات مت کریں۔دریا راستے تک نہیں آتا،راستہ دریا کی حدود میں چلا جاتا ہے۔
کلاؤڈ برسٹ اس سے پہلے کم سننے کو ملتا تھا۔یہ شاید 2012 کی بات ہے کہ بھوجا ایئر لائن کی کراچی سے اسلام آباد آنے والی ایک بدقسمت فلائٹ چکلالہ ایئر پورٹ پر اترنے سے چند لمحے پہلے گر کر تباہ ہو گئی۔اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ جہاز کلاؤڈ برسٹ کی زد میں آ گیا تھا۔کلاؤڈ برسٹ ایک انتہائی خطرناک اور اچانک نازل ہونے والا موسمی مظہر ہے جس میں محدود علاقے میں بہت تھوڑے سے وقت میں ٹنوں اور منوں پانی برستا ہے۔
عام طور پر یہ بارش اتنی شدید ہوتی ہے کہ دنوں،مہینوں میں جتنی بارش ہوتی ہے وہ منٹوں میں ہو جاتی ہے۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یکدم بے تحاشہ پانی انڈیل دیا گیا ہو۔اس کی وجہ سے فلیش فلڈز،لینڈ سلائیڈنگ،انفرا سٹرکچر کی تباہی،فصلوں کا نقصان اور انسانی جانیں جا سکتی ہیں۔کلاؤڈ برسٹ ایک مقامی اور انتہائی شدید بارش کا واقعہ ہوتا ہے جس میں 100ملی میٹر یا اس سے زیادہ بارش ایک گھنٹے سے کم وقت میں کسی محدود جگہ پر ہوتی ہے۔یہ واقعہ پہاڑی اور میدانی دونوں طرح کے علاقوں میں ہو سکتا ہے۔یہ عام تیز بارش کے مقابلے میں ہائی انٹینسٹی رین فال ہے۔ موسمیاتی ریڈارز اکثر اس کی درست پیش گوئی کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
پاکستان میں ایک لمبے عرصے سے جنگلات کی غیر ضروری کٹائی کا عمل جاری ہے۔جنگلات کو ایک مربوط منصوبے کے تحت اگایا اور کاٹا جائے تو یہ ملکی معیشت میں ایک مثبت عمل بنتا ہے اور کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن ہمارے ہاں کٹائی ہی کٹائی ہے۔ جنگلات اگانے اور جنگلات کا رقبہ بڑھانے کے اعلانات تو ہر حکومت میں ہوتے ہیں لیکن یہ عمل کھوکھلے نعروں تک محدود رہتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پچھلے 30سال میں جنگلات کا رقبہ خاصا کم ہوا ہے۔
درختوں کی جڑیں،مٹی اور پتھروں کو مربوط کرتی اور اپنی جگہ پر جمے رہنے میں مدد گار ہوتی ہیں۔ درخت کٹ جانے سے بارش ہونے پر مٹی بہہ نکلتی ہے،مٹی جو کہ زمین اور پتھروں کو متحد رکھتی ہے،اس مٹی کی غیر موجودگی میں پتھراپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں اور گڑ گڑ کرتے نیچے کو لڑھک جاتے ہیں یہی عمل لینڈ سلائیڈنگ کا باعث بنتا ہے۔لینڈ سلائیڈنگ سے راستے اور پل ٹوٹ جاتے ہیں۔ٹمبر مافیا کی حرص و ہوس اور حکومتی اہلکاروں کی نا اہلی و کرپشن کی وجہ سے ڈی فارسٹیشن ہوتی ہے جو آگے چل کر لینڈ سلائیڈنگ کا موجب بنتی ہے۔
حالیہ زوردار بارشوں،کلاؤڈ برسٹ اور فلش فلڈز سے پارہ چنار،لنڈی کوتل،بونیر، باجوڑ، شانگلہ، مینگورہ،مانسہرہ،صوابی،بٹگرام،چلاس گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور بلوچستان میں ہرنائی کے علاوہ کئی ایک مقامات پر بہت جانی ،مالی نقصان ہوا۔انفراسٹرکچر کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ کراچی بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔
مون سون موسم کے خاتمے میں ابھی تین ہفتے باقی ہیں۔نقصانات کا صحیح اندازہ بارشوں کا سیزن ختم ہونے پر ہی ہوگا لیکن ابتدائی اطلاعات ایک بھیانک اور خطرناک منظر پیش کر رہی ہیں۔ انفراسٹرکچر کی تباہی کے ساتھ کئی سو افراد جان بحق یا زخمی ہیں، اسپتالوں اور رابطہ سڑکوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے زخمیوں کی دیکھ بھال اور ادویات کی فراہمی مشکل بنی ہوئی ہے۔ ہزاروں گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔بجلی گھر،سرکاری اسکول، تھانے، ڈاک خانے اور ریسٹورنٹس فلیش فلڈز کی زد میں آ کر بہہ گئے ہیں۔ مارکیٹیں،گاڑیاں،دکانیں،مکان تیز اور فلیش فلڈز کی زد میں آ کر تباہی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ بونیر میں دو گاؤں تقریباً مٹ گئے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں بحالی میں مصروف ہیں۔پلوں اور سڑکوں کی بحالی ترجیح ہیں۔ہمیشہ کی طرح پاک فوج اور الخدمت فاؤنڈیشن بحالی کی جدو جہد میں پیش پیش ہیں۔کئی این جی اوز بھی کام میں جت گئی ہیں۔ بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ پانی کے بہاؤ کے راستے میں تجاوزات کے خلاف آپریشن کی بات ہو رہی ہے۔یہ کوئی آسان کام نہیں لیکن یہ بہت ضروری کام ہے۔ با اثر افراد کے مفادات کی وجہ سے عام طور پر عدالتیں ایسے اچھے کام کے خلاف اسٹے آرڈر دے دیتی ہیں۔امید ہے اب عدالتیں تجاوزات ختم کرنے میں اپنی ذمے داری پوری کریں۔
کلائیمیٹ چینج اور پچھلے 3سالوں میں ہونے والی تباہی کو سامنے رکھ کر ہمیں ایک مربوط اور قابلِ عمل منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ہمارے ہاں اب بارشوں کے موسم میں بے تحاشہ فالتو پانی جب کہ خشک مہینوں میں پانی کی شدید قلت ہوتی ہے۔ہمیں ایسا نظام وضع کرنا ہوگا کہ بارشوں کے موسم میں زیادہ سے زیادہ پانی اسٹور کریں تاکہ خشکی کے موسم میں پانی کی قلت نہ ہو۔کرنے کے بہت کام ہیں۔کاش ہم ترجیحات طے کر کے کام میں جت جائیں۔کاش ہم جاگ جائیں اور پاکستان کو ایک خوشحال معاشرے میں تبدیل کرتے ہوئے عوامی فلاح کو ترجیح دیں۔اﷲ ہمارے مصیبت میں مبتلا لوگوں کی مدد فرمائے اور اس آفت میں جاں بحق افراد کے درجات بلند فرمائے۔