ایم کیو ایم پاکستان کے دس سال
m_saeedarain@hotmail.com
دس سال قبل اگست کے تیسرے ہفتے میں قائد ایم کیو ایم کے انتہائی متنازع بیان کے بعد پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کے جی حضوری بھائی کے رہنماؤں کو اپنے بانی کی سیاست اور پالیسی سے لاتعلقی کا اظہار کرنا پڑا تھا اور ایم کیو ایم پاکستان کے قیام کا اعلان بہادر آباد کے عارضی دفتر سے کرنا پڑا تھا جس کے قیام کو دس سال مکمل ہو گئے ہیں۔
پی ایس پی کے بانی مصطفیٰ کمال جن کا تعلق بانی کی ایم کیو ایم سے تھا جو کراچی کے سٹی ناظم بھی رہے تھے پہلے ہی بانی کی غلط پالیسیوں کے باعث الگ ہو چکے تھے جنھوں نے قائد کی ایم کیو ایم میں بڑا ڈینٹ ڈالا تھا۔ مصطفیٰ کمال سے قبل کسی رہنما کو جی حضوری پالیسی کے تحت بانی کی پالیسی سے اختلاف کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور بانی کی ہر بات سر آنکھوں پر ہوتی تھی جس کی وجہ سے ایم کیو ایم جو متحدہ قومی موومنٹ تھی دہشت گردانہ پالیسی کے باعث ملک بھر میں بدنام تھی۔
قائد ایم کیو ایم اپنی پارٹی کے خلاف آپریشن سے قبل ہی لندن جا چکے تھے ،اس وقت سندھ کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی تھے، قائد پارٹی لندن میں ایم کیو ایم کا انٹرنیشنل سیکریٹریٹ قائم کرکے وہیں ہی سے ایم کیو ایم چلا رہے تھے اور تمام رہنما قائد کی پالیسی پر پاکستان میں رہ کر ایم کیو ایم چلا رہے تھے۔
ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن نواز شریف حکومت میں ہی شروع ہو چکا تھا مگر بے نظیر بھٹو 1993 میں جب دوبارہ اقتدار میں آئیں تو انھوں نے اپنے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کو آپریشن کی ذمے داری سونپی تھی جن کی قیادت میں کراچی آپریشن میں شرپسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی ہوئی اور پی پی کی سندھ حکومت نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مخالف پولیس افسروں کو تعینات کیا۔ بگڑتے ہوئے حالات کے مطابق کراچی آپریشن کسی حد تک جائز تھا۔ ایم کیو ایم کے اصل دہشت گرد زیرزمین چلے گئے اور ملک سے فرار ہو گئے اور ایم کیو ایم سے برائے نام تعلق رکھنے والے بھی پولیس مقابلوںکی زد میں آئے۔
ایم کیو ایم کی د ہشت گردی جاری تھی ۔ کراچی آپریشن سے ایم کیو ایم سے ہمدردی پیدا ہوئی اور قائد کا کام روز تقریریں اور رونا دھونا رہ گیا تھا جس سے ان کی سیاست چلتی رہی مگر سزا کراچی نے بھگتی اور پی پی حکومت کے خلاف آپریشن کمزور تو ہوا مگر ایم کیو ایم کی دہشت گردی جاری رہی جس میں سابق گورنر حکیم سعید سمیت نامور شخصیات نشانہ بنائی گئیں اور پولیس افسروں کو بھی چن چن کر مارا گیا۔
اگست 2015 تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور آخر 22اگست کو قائد نے ایم کیو ایم پاکستان بنانے پر مجبور کر دیا اور بعد میں مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار بھی اپنے دھڑے ختم کرکے ایم کیو ایم پاکستان میں آگئے پھر بھی ایم کیو ایم سیاسی پارٹیوں کی طرح شکل اختیار نہ کر سکی اور قائد کی ایم کیو ایم کی طرح کنوینر، ڈپٹی کنوینر اور رابطہ کمیٹی کا سلسلہ برقرار ہے اور ایم کیو ایم اپنی مقبولیت مسلسل کھو رہی ہے۔ اپنی پالیسی کی بجائے کسی اور کی ہدایت پر چلنے والی موجودہ ایم کیو ایم میں بلدیاتی الیکشن لڑنے کی بھی سکت نہ تھی اسی لیے عزت بچانے کے لیے بائیکاٹ کیا گیا جو اس کی پرانی پالیسی رہی ہے۔
2018 ء میں کراچی میں ایم کیو ایم کی جگہ پی ٹی آئی کو لا کر ایم کیو ایم محدود کی گئی پھر 2024 میں دوبارہ ایم کیو ایم لائی گئی ۔ قیادت کی توجہ پارٹی سے زیادہ حکومتی معاملات پر ہے کارکنوں میں مایوسی ہے۔ شہر میں پہلے کی طرح دفاتر ہیں نہ عوام سے کہیں رابطہ، ہر کوئی اپنی میں مگن ہے۔
اب تو قائد نے اپنے حلف یافتہ کارکنوں کو اپنی وفاداری کے حلف سے بھی آزاد کر دیا ہے جس سے موقعہ ملا ہے کہ ایم کیو ایم کی تنظیم سازی کرکے پرانی پالیسی ترک کرکے باقاعدہ انتخابات کرائے جائیں اور پرانے کارکنوں کو آگے لایا جائے نیا منشور بنے اور دوبارہ مقبولیت کے حصول کی کوشش کی جائے۔ فی الحال تو ایم کیو ایم کراچی تک ہی محدود نظر آتی ہے، اب پہلے جیسا ماحول ہے نہ ہی ایم کیو ایم پہلے جیسی بن سکتی ہے۔