رواں ماہِ اگست کے پچھلے چند ہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کے کئی کارکنان اور لیڈروں کو کئی چھوٹی بڑی عدالتوں کی طرف سے رہائی بھی ملی ہے اور سزائیں بھی۔ مثال کے طور پر جنابِ شاہ محمود قریشی بری کیے گئے ہیں۔ شاہ صاحب کی رہائی اور بریت نے بھی بقولِ شاعر یہ صورت پیدا کر رکھی ہے: کیسی اسیری ہے، کیا رہائی ہے! متنوع شکوک و شبہات نے شاہ محمود قریشی کے بری ہونے پرسر اُٹھایا ہے ۔
عجب رویہ پیدا ہو چکا ہے پی ٹی آئی کے شک زدہ وابستگان میں ۔جو سیاستدان ، وکلا اور کارکنان اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے میل ملاقات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، کئی شبہات اور کچھ مبینہ ’’ٹاؤٹی‘‘ کی زَد میں آجاتے ہیں۔جنہیں عدالتوں کی جانب سے رہائی یا بریت ملی ہے، اُن کا زیادہ تر تعلق 9مئی کے بدنامِ زمانہ سانحات سے ہے ۔اور جو سزایافتگان کی ناقابلِ رشک فہرست میں شمار کیے گئے ہیں ، اُن کا تعلق بھی 9مئی ہی سے ہے۔ سزا یافتگان میں جنہیں دس، دس سال کی سزائیں دی گئی ہیں ، وہ اگر رکنِ قومی یا صوبائی اسمبلی یا رکنِ ایوانِ بالا ہیں تو وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نااہل بھی قرار دیے جا چکے ہیں ۔
سزا پر سزا پانے والے نااہل حضرات کی قومی، صوبائی اور سینیٹ کی سیٹیں خالی ہو چکی ہیں۔ حکومت نے ان پر ضمنی انتخابات کروانے کے اعلانات بھی کر دیے ہیں۔سوائے پی ٹی آئی کے، بقیہ سیاسی جماعتیں ان ضمنی انتخابات میں بقدرِ ہمت و جثہ حصہ لینے پر تیار ہو گئی ہیں۔ اپنے وابستگان ، لیڈروں اور کارکنوں کو اپنی مٹھی میں رکھنے کے دعویدار ، بانی پی ٹی آئی ، نے دھڑلّے سے اعلان ’’فرمایا‘‘ تھا کہ ہم کسی بھی ضمنی انتخاب میں حصہ ہر گز نہیں لیں گے ۔ہم ایسے ہی چمدانوں نے اُنہیں اور اُن کے بہی خواہوں کو مشورہ دیا تھا کہ ایسی غلطی ہر گز نہ کیجئے ۔
ایسا کیا گیا تو اُن کی رہی سہی سیاسی ساکھ اور مبینہ سیاسی دباؤ بھی مزید جاتا رہے گا یا مزید مدہم یا معدوم ہوجائیگا۔ ہم نے مثال دیتے ہُوئے گزارش کی تھی کہ ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے ہُوئے بانی پی ٹی آئی کے پیشِ نظر محترمہ بے نظیر بھٹو کا فیصلہ ہونا چاہیے ۔ محترمہ شہید نے بھی ایک بار اِسی طرح انتخابات کا مقاطع کیا تھا اور بعد از انتخابات تا دیر کفِ افسوس ملتی رہی تھیں ۔
اب تازہ ترین خبروں کی بازگشت سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لینے کی ضِد سے پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔ اُن کے بعض بہی خواہوں ، مخلصین اور دوستوں کے مشورے کام دکھا گئے ہیں۔ بقول داغ دہلوی کہا جا سکتا ہے: راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں۔شنید ہے کہ بانی صاحب کبھی کبھار کچھ لوگوں کی باتیں سُن بھی لیتے ہیں اور ’’ڈَٹ کے کھڑا ہے کپتان‘‘ اپنی جگہ سے سرک بھی سکتا ہے ۔یُو ٹرن لینا بھی تو اُن کا شعار اور فخر رہا ہے۔
تیزی سے بدلتے (ناموافق ) حالات کے سنگین تیور بھی اُن کی سمجھ میں آگئے ہیں۔ بعض اطراف سے، اشارتاً ہی سہی، معافی دینے دلانے کی جو باتیں چار سُو فضا میں پھیلی ہُوئی ہیں، یہ شائد اُن کا بھی اپنا اثر ہو ۔ اُن کے مقتدر صوبے میں سیلابوں نے جو معاشی ، جانی اور نفسیاتی بے اَنت تباہی پھیلائی ہے ، اِس نے بھی زندانی بانی کے اعصاب پر ، شائد ، اثرات مرتب کیے ہوں ۔ جو بھی ہو، ساٹھ ہاتھ رسّہ اور سرے پر گَنڈ کے مصداق، بانی پی ٹی آئی صاحب ضمنی انتخابات میں حصہ لینے پر راضی ہو گئے ہیں۔ اِس وقت پنجاب اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈروں کی نشستیں ، بوجہ نااہلی ، خالی ہو چکی ہیں۔ اِن سب نشستوںپر پی ٹی آئی کے چنیدہ اور منتخب لوگ براجمان تھے۔
اِن سب نشستوں پر ، ضمنی انتخابات کے لیے، بانی صاحب اپنا کوئی بندہ کھڑا کرنے پر تیار نہیں تھے ۔ اب مبینہ طور پر اُنہیں اپنے پاؤں تلے سے زمین کھسکتی ہُوئی محسوس ہُوئی ہے تو وہ اپنے خیالات یا اعلان سے رجعت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔سیاسی طور پر بہرحال اُن کا یہ فیصلہ مستحسن ہے۔ ثبوت یہ ہے کہ اُنھوں نے پی ٹی آئی کے سینیٹر ، جناب اعجاز چوہدری، کی نااہلی کے سبب خالی ہونے والی نشست پر مبینہ طور پر اُن کی اہلیہ (محترمہ سلمیٰ اعجاز) کو سینیٹ کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ جاری کر دیا ہے۔
محترمہ کے مقابل نون لیگ نے سینیٹ کا ٹکٹ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مشہور سیاستدان، جناب رانا ثناء اللہ خان، جو پچھلے انتخابات میں پی ٹی آئی کے اُمیدوار سے شکست کھا گئے تھے،کو عنائت کیا ہے اور وہ بآسانی یہ نشست نکال بھی لے جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی خالی ہونے والی نشست کو پُر کرنے کے لیے پی ٹی آئی نے 5نام مانگے ہیں ۔ اور اِس پر پی ٹی آئی گو مگو کی کیفیت میں ہنوذ مبتلا ہے ۔ اور قومی اسمبلی میں جناب گوہر ایوب کی بطورِ اپوزیشن لیڈر ( نااہل ہونے کے سبب) خالی ہونے والی نشست کے لیے بانی نے بلوچستان سے بزرگ اور ممتاز سیاستدان، جناب محمود اچکزئی، کو نامزد کیا ہے۔
اِس سے پہلے اچکزئی صاحب کو بانی پی ٹی آئی نے صدارت کے عہدے کے لیے بھی(جناب آصف علی زرداری کے مقابل) نامزد کیا تھا مگر محمود اچکزئی بُری طرح اپنے مقابل سے ہار گئے تھے۔ ایوانِ بالا میں ضمنی انتخاب کے لیے بانی صاحب نے سواتی صاحب کو( بطورِ اپوزیشن لیڈر) نامزد کیا ہے۔ سواتی صاحب کی ہماری سیاست میں جو متنوع ’’مشہوریاں‘‘ ہیں ، شائد یہ مشہوریاں ہی اُنہیں ایوانِ بالا میں اپوزیشن لیڈر کی کرسی پر براجمان کروانے میں کامیاب ہو جائیں ۔
بانی صاحب نے قومی اسمبلی کے لیے اپوزیشن لیڈر کے لیے جس محترم شخصیت کا انتخاب کیا ہے ، یہ اُن کا ذاتی (اور آمرانہ ؟) فیصلہ ہے ۔ اِس کے نتائج کے بھی وہی ذمے دار ہوں گے ۔ مگر اکثر سیاسی پنڈتوں اور دانشمندوں نے اُن کے اس فیصلے کو صائب اور مستحسن نہیں سمجھا ۔ کہا جا رہا ہے کہ نیشنل اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن کی خالی ہونے والی نشست پر کسی نئے شخص کو بٹھانے کا فیصلہ پی ٹی آئی کے ارکانِ قومی اسمبلی کو ہی کرنا چاہیے تھا ۔
اور وہ شخص پی ٹی آئی ہی کا ہونا چاہیے تھا، نہ کہ کسی دوسری پارٹی کا۔جناب محمود خان اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کرنے کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے اِس عہدے کے لیے اپنی ساری پارٹی کے ارکان، وابستگان اور ارکانِ قومی اسمبلی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔
اِس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ شائد اِسی پس منظر میں ممتاز دانشور ، سیاسی تجزیہ کار اور کئی عالمی شہرت یافتہ کتابوں کے مصنف، جناب حسین حقانی، کو بھی اِن الفاظ میں تبصرہ آرائی کرنا پڑی ہے: ’’ بانی پی ٹی آئی نے جیل سے محمود اچکزئی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا لیڈر نامزد کر دیا ہے۔اچکزئی صاحب ہمیشہ جمہوری جدوجہد میں شامل رہے ہیں۔ مگر لیڈر آف اپوزیشن کا انتخاب ارکانِ اسمبلی کو کرنا چاہیے۔ دوسری پارٹیوں میں فردِ واحد کی جانب سے نامزدگیوں پر اعتراض کرنے والے اب کہاں ہیں۔‘‘
محمود خان اچکزئی ’’اپوزیشن گریڈ الائنس‘‘ کے سربراہ بھی تو ہیں ، اس لیے بھی وہ بانی پی ٹی آئی کے معتمد بھی ہیں اور مقرب بھی ۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اچکزئی صاحب سے بانی صاحب کو کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ اِس فیصلے سے مگر بانی صاحب کی ذہنی کیفیت اور سوچ بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے بقیہ سینئر افراد کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔ محمود خان اچکزئی صاحب کے انتخاب پر یقیناً پی ٹی آئی کے اندر مزید ناراضیاں ، لیڈر سے اعراض اور شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔
یہ بات بھی دیکھنے والی ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ بانی صاحب نے عدالتوں کی جانب سے پی ٹی آئی کے لوگوں کو دی گئی سزائیں اور پھر نااہلیاں دل و جان سے قبول کر لی ہیں ۔ پھر بھی بانی کی طرف سے تازہ ٹویٹ یوں کیا گیا ہے:ڈَٹ کر کھڑا ہے کپتان۔