پاک چین دوستی، دوطرفہ تعلقات کا نیا باب رقم

پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہمیشہ سے گہری، مستحکم اور اعتماد پر مبنی رہی ہے

پاکستان اور چین کے درمیان اسلام آباد میں وزرائے خارجہ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے چھٹے دورکا انعقاد ہوا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق فریقین نے اس امر پر زور دیا کہ پاکستان اور چین کی پائیدار اور اسٹرٹیجک شراکت داری خطے میں امن و استحکام کے لیے نہایت اہم، دونوں ممالک کی ترقی وخوشحالی کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتی ہے، جسے جاری رکھیں گے۔

قبل ازیں پاکستان کے دورے پر آئے چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات ہوئی ہے جس میں سی پیک کی اہمیت اور علاقائی رابطوں کو بڑھانے میں اس کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے فیز ٹو میں ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس موقعے پر وزیراعظم شہباز شریف نے تجارت، سرمایہ کاری، آئی سی ٹی، زراعت، صنعتی ترقی، معدنیات اور دیگر اہم شعبوں میں چین کے ساتھ دوطرفہ تعاون کو مزید گہرا کرنے کی خواہش کا اعادہ بھی کیا۔

پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کی نوعیت ہمیشہ سے گہری، مستحکم اور اعتماد پر مبنی رہی ہے۔ دونوں ممالک نے ہر مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، چاہے وہ عالمی سطح پر سیاسی دباؤ ہو، خطے میں سیکیورٹی کے چیلنجز ہوں یا اقتصادی مسائل کا سامنا۔ حالیہ دنوں میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کا دورہ پاکستان اس دیرینہ رفاقت کی ایک تازہ جھلک ہے، جو نہ صرف دوطرفہ تعلقات کے نئے باب رقم کرتا ہے بلکہ خطے میں اقتصادی ترقی، امن اور استحکام کے لیے بھی نئی راہیں متعین کرتا ہے۔

چینی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ پاکستان دونوں ممالک کے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کا حصہ ہے، علاقائی تناظر میں یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب خطے میں پاک بھارت تناؤ اور حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد کی صورتحال عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ چین نے حالیہ پاک بھارت تصادم میں پاکستان کی حمایت کی تھی اور اس دورے میں بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاسی صورتحال میں تعاون کو مزید گہرا کرنے پر غور کیا جائے گا۔

دوسری طرف پاکستان کے امریکا کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں یہ دورہ اہم ہے۔ چین اس دورے کے ذریعے پاکستان کے ساتھ اپنی اسٹرٹیجک شراکت داری کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ دورے کے دوران سی پیک منصوبوں کی پیشرفت اور پاک چین تجارتی و معاشی تعاون کو وسعت دینے پر توجہ دی جائے گی۔ چین سی پیک کے ’’اپ گریڈ ورژن‘‘ پر کام کرنے کا عزم رکھتا ہے، جو پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے اہم ہے۔ درحقیقت اس دورے میں سی پیک کے دوسرے مرحلے پر خصوصی توجہ دی گئی جو کہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کا ایک مظہر ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سمیت اعلیٰ قیادت کی اس ملاقات میں موجودگی نے اس بات کی گواہی دی کہ پاکستان اس شراکت داری کو قومی مفاد میں انتہائی سنجیدگی سے لے رہا ہے۔سی پیک کا دوسرا مرحلہ محض سڑکوں یا توانائی منصوبوں تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک جامع ترقیاتی فریم ورک ہے جس میں صنعتی زونز، زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، معدنیات، تعلیم اور صحت جیسے شعبے شامل ہیں۔

اس فیز میں ترجیح اس بات کو دی جا رہی ہے کہ پاکستان کی معیشت کو خود انحصاری کی جانب گامزن کیا جائے، برآمدات میں اضافہ ہو، مقامی صنعت کو فروغ ملے اور روزگار کے مواقعے پیدا ہوں۔ خصوصی اقتصادی زونز، مثلاً راشکئی، فیصل آباد، بوستان اور علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی میں چینی سرمایہ کاری سے پاکستانی نوجوانوں کے لیے روزگار کے دروازے کھل رہے ہیں۔ زراعت کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور چینی تجربات سے استفادہ کیا جا رہا ہے تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو اور غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ آئی ٹی کے شعبے میں اشتراک پاکستان کو ڈیجیٹل معیشت کی طرف لے جانے میں مددگار ہوگا۔

اس ملاقات میں خاص طور پر یہ بات سامنے آئی کہ چین پاکستان کی خود مختاری، سالمیت اور علاقائی استحکام کے حوالے سے مکمل حمایت جاری رکھے گا۔ وانگ ژی نے اپنی گفتگو میں پاکستان کو ’’ آل ویدر اسٹرٹیجک پارٹنر‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ ہر حال میں کھڑا رہے گا۔ جواباً پاکستان نے بھی چین کی سالمیت، ہانگ کانگ، تائیوان، سنکیانگ اور جنوبی بحیرہ چین جیسے حساس معاملات پر اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔

یہ باہمی اعتماد دونوں ممالک کو اس مقام پر لے آیا ہے جہاں نہ صرف دوطرفہ تعلقات ایک نئی بلندی پر پہنچ چکے ہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی یہ تعاون ایک مثال بن چکا ہے۔تاہم، ان تمام مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ سی پیک اور اس جیسے منصوبوں کو کئی چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔ سیکیورٹی کے مسائل، خاص طور پر بلوچستان اور گوادر کے علاقوں میں، ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔

ماضی میں چینی انجینئرز اور ورکرز پر ہونے والے حملے نہ صرف ان منصوبوں کی رفتار کو سست کرتے ہیں بلکہ دوطرفہ تعلقات پر بھی منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اس حوالے سے متحرک ہیں، لیکن ضرورت اس امرکی ہے کہ مقامی سطح پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے، ان کی شکایات کو سنا جائے اور ترقی کے ثمرات ان تک بھی پہنچائے جائیں۔ اس لیے شفافیت، شمولیت اور برابری کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مزید برآں، سی پیک کے منصوبوں میں بعض اوقات صوبائی اور وفاقی سطح پر ہم آہنگی کا فقدان بھی نظر آتا ہے۔

کئی مرتبہ صوبائی حکومتیں شکایت کرتی نظر آئیں کہ منصوبوں میں ان کی رائے یا ضرورتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس صورت حال میں مرکز اور صوبوں کے درمیان بہتر رابطہ کاری، مشاورت اور اعتماد سازی ناگزیر ہو چکی ہے۔ ایک  اہم پہلو جس پر توجہ دینا ضروری ہے وہ ہے ماحولیات۔ سی پیک کے بعض منصوبے ماحولیاتی اثرات کے حامل ہیں، جن پر ماہرین نے متعدد بار تحفظات کا اظہارکیا ہے۔ چین نے حالیہ برسوں میں گرین ڈیولپمنٹ کی پالیسی اختیار کی ہے اور پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ ترقی کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔

گرین ٹیکنالوجی، قابل تجدید توانائی کے منصوبے، ماحولیاتی جائزے اور مقامی حیاتیاتی نظام کی حفاظت جیسے اقدامات ترقی کو پائیدار اور دیرپا بنا سکتے ہیں۔سی پیک کے دوسرے مرحلے میں خواتین کی شمولیت، تعلیم، صحت اور پسماندہ علاقوں کی ترقی جیسے شعبے بھی شامل کیے جا رہے ہیں جو کہ ایک خوش آیند پیش رفت ہے۔ پاکستان میں سماجی ناہمواری، جنس کی بنیاد پر امتیاز اور پسماندہ علاقوں کی محرومیاں دیرینہ مسائل ہیں، جنھیں صرف معیاری ترقیاتی پالیسی کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے، اگر چینی ماڈل سے سبق لیتے ہوئے ہم بھی تعلیم، ہنر مندی اور خواتین کو بااختیار بنانے پر سرمایہ کاری کریں تو یہ منصوبہ نہ صرف معیشت کو سہارا دے گا بلکہ معاشرے میں بھی مثبت تبدیلیاں لائے گا۔

 علاقائی سیاست میں بھی سی پیک کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ بھارت، جو کہ اس منصوبے کا شدید مخالف ہے، اسے اپنی خود مختاری کے خلاف سمجھتا ہے کیونکہ سی پیک گلگت بلتستان سے گزرتا ہے۔ چین اور پاکستان کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی قربت بھارت کے لیے سفارتی چیلنج ہے، اور اس صورتحال میں پاکستان کو توازن کی پالیسی اپنانا ہو گی تاکہ خطے میں غیر ضروری کشیدگی سے بچا جا سکے۔ امریکا اور مغربی دنیا کی جانب سے بھی دباؤ رہتا ہے کہ پاکستان چین پر حد سے زیادہ انحصار نہ کرے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، جب کہ مغربی ممالک اکثر مفاد پرستی پر مبنی پالیسی اپناتے ہیں۔

پاکستان کو اب اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ سی پیک صرف ایک اقتصادی منصوبہ نہیں بلکہ قومی ترقی کی ایک مکمل حکمت عملی ہے۔ اس میں صرف حکومتوں کا نہیں بلکہ عوام، صنعت، تعلیمی اداروں، میڈیا، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کا بھی کردار ہونا چاہیے۔ سی پیک کے حوالے سے اب یہ بحث ختم ہونی چاہیے کہ یہ منصوبہ صرف ایک مخصوص خطے، حکومت یا طبقے کے لیے ہے۔ یہ پاکستان کے ہر شہری کا منصوبہ ہے، جو اسے غربت، بے روزگاری، عدم مساوات اور پسماندگی سے نکال سکتا ہے۔

اس لیے قوم کو اس کی کامیابی کے لیے متحد ہونا ہو گا۔ میڈیا کا بھی کردار اہم ہے کہ وہ منفی پروپیگنڈے کے بجائے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرے اور حکومت کی کوتاہیوں کی نشاندہی بھی تعمیری انداز میں کرے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر سی پیک فیز ٹو کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے تو ہمیں خود بھی ایک ذمے دار، باصلاحیت اور خود کفیل قوم بننا ہوگا۔

ہمیں اپنی پالیسیاں مضبوط کرنی ہوں گی، اپنے ادارے فعال اور شفاف بنانے ہوں گے اور قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر مقدم رکھنا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں ہم سی پیک کو ایک خواب سے حقیقت میں بدل سکتے ہیں اور دنیا کو دکھا سکتے ہیں کہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ اس سفر میں اگر ہم سب متحد ہوں، ایماندار ہوں اور اپنے مقصد سے مخلص ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم کامیاب نہ ہوں۔

Load Next Story