لاہور سے باہر، دور دراز کے علاقوں سے جو نوجوان حصول علم کے لیے لاہورکی دانشگاہوں کا رخ کرتے ہیں، ان میں سے شاید ہی کوئی ہو گا، جس نے اس دوران، یا اس کے بعد نوکری سے پہلے بیکاری کے دور میں، مال روڈ پر لارنس باغ کے بلندوبالاگھنے درختوں کی نرم، ٹھنڈی اورمہربان چھاؤں کے نیچے کچھ وقت نہ گزارا ہو۔
حقیقتاً، لاہور کو باقی شہروں سے ایک ہی چیزمختلف اور ممتاز کرتی ہے، اور وہ لارنس باغ ہے۔ کہتے ہیں، قیام پاکستان کے بعد جب اس باغ اور اس کے احاطے کے اندر واقع قدیم رومن طرز تعمیر کی شاہکار عمارت کے پرانے نام ، لارنس گارڈن اور منٹگمری ہال، دور ِغلامی کی ’یادگار‘ قرار پا گئے، تو ان پر سے عہد کہن کے نشان مٹا کر ان کو بھی عہد نو کے نئے ناموں سے سرفراز کر دیا گیا؛ حالانکہ نئے ناموں سے نیا اور اس سے بڑا باغ اور اس سے زیادہ بڑی اور پرشکوہ عمارت تعمیرکی جا سکتی تھی۔ مشکل یہ ہے ،’’مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ‘‘۔
باغ جناح ( لارنس گارڈن ) اور قائداعظم لائبریری ( منٹگمری ہال ) سے میری جان پہچان پنجاب یونیورسٹی کے دنوں سے ہے۔ اگرچہ نیوکیمپس بھی اپنی قدامت، تناور درختوں، ان کے بیچوں بیچ بہتی ہوئی نہر، پھولوں سے لدے پھندے پودوں، مخملیں گھاس کے قطار در قطارقطعوں، اور ان پر ہمہ وقت نغمہ سرا خوش رنگ پرندوں کے سبب لارنس باغ ہی کا حصہ معلوم ہوتا تھا، مگر لارنس باغ کے اندر منٹگمری ہال کی عمارت نے اس کو جو عظمت، ہیبت اور دلکشی بخش دی ہے۔
یہ مسحورکن نظارہ لارنس باغ میں آکے ہی کیا جا سکتا تھا۔ برسات کے ان دنوں میں، جب بارش میں دھل کے منٹگمری ہال کی گوری چٹی عمارت اور بھی گوری اور لارنس باغ کے درخت گہرے سبز ہو جاتے، اور دونوں رنگ مل کر فضا میں اڑتے سبز ہلالی پرچم کے ایسا منظر پیش کرتے، تو یوں محسوس ہوتا کہ عہدکہن اور عہد نو کے سارے امتیاز مٹ گئے ہیں، نئے پرانے نام اور سب رنگ ایک ہی نام اور رنگ میں مدغم ہو گئے ہیں، اور یہ وہی ازلی اور ابدلی رنگ ہے، جو فطرت کا دائمی رنگ ہے۔
یہی رنگ دیکھنے کے لیے کبھی کبھی میں اور ہیلے کالج میں میر پورکا میرا دوست، جو اس منظر کا دیوانہ تھا، نیوکیمپس ہوسٹل سے33 نمبر ویگن پر بیٹھتے اور سیدھا لارنس باغ پہنچ کر دم لیتے۔ یہ وہ زمانہ ہے، جب ابھی منٹگمری ہال کا بطور ‘ قائداعظم لائبریری‘ افتتاح نہیں ہوا تھا، اگرچہ اس کے لیے عمارت کی تزئین و آرایش کا کام جاری تھی۔ ان دنوں لارنس باغ کی وجہ شہرت اس کی مسجد دارالسلام میں ڈاکٹر اسرار احمد کا خطاب جمعہ بھی ہوا کرتا تھا، جو اپنے ٹیلی وژن پروگرام ’فہم القرآن‘ سے خوب شہرت پا چکے تھے۔
چنانچہ مہینے میں ایک دو بار ان کے خطبہ سے مستفید ہونے کے لیے بھی لارنس گارڈن کا پھیرا لگ جاتا تھا۔ مگر، کچھ عرصہ بعد جب میںاور لاء کالج میں میرے سرائے عالمگیر کے دوست عاشق حسین یہاں آنا شروع ہوئے، تو اس وقت تک منٹگمری ہال کی نئی شناخت ’قائداعظم لائبریری‘بہت مستحکم ہو چکی تھی۔ یہ گرمیوں کی تپتی دوپہروں اور برسات کی حبس آلود شاموں کی اداس یادیں ہیں، جن میں ہمیں آگے کچھ بھی صاف نظر نہ آتا تھا۔لارنس باغ سے مزید قربت اس طرح پیدا ہوئی کہ لوئرمال پر ہفت روزہ ’زندگی‘ میں نئی ملازمت کے ساتھ لارنس روڈ پر رہایش بھی مل گئی۔
کہتے ہیں، جس قوم کے باغات اور لائبریریاں آباد ہوتے ہیں، وہ جسمانی ہی نہیں، دماغی طور پر بھی زیادہ پھلتی پھولتی ہیں۔ یونان کی تاریخ اور اس کے محل وقوع پر غورکریں، تو معلوم ہوتا ہے کہ یونانی صرف فلسفی نہیں تھے، بلکہ جسمانی طور پر بھی اتنے مضبوط تھے کہ سقراط جیسا فلسفی بھی اپنی ریاست کے لیے باقاعدہ جنگی خدمات انجام دے چکا تھا۔ منٹگمری ہال لارنس باغ میں کتب خانہ شروع سے ہے، مگر جس گمنام شخص نے جنرل ضیاء یا جنرل جیلانی کو اسے مکمل طور پر ریسرچ لائبریری بنانے پر قائل کیا، اور یوں کتاب او رگوشہ ء چمن کو یکجا کر دیا ہے، وہ یقینی طو رپر اس راز سے واقف تھا کہ کتاب صرف مونس ِ تنہائی نہیں، بلکہ فروغ ِ صبح ِدانائی بھی ہے ؎
انیس ِکنج ِتنہائی کتاب است
فروغِ صبح ِدانائی کتاب است