دھوکا دہی کے نئے نئے طریقے
اس تحریر کےلیے اس عنوان کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے کہ جب تک یہ دنیا قائم رہے گی یہ عنوان کبھی پرانا نہیں ہوگا اور ہر دور میں دھوکا دہی کے نئے نئے طریقے متعارف ہوتے رہے گے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انسان کو جلدباز اور ناشکرا قرار دیا ہے اور خالق سے بہتر بھلا مخلوق کو کون جان سکتا ہے۔ اگر اس لفظ جلدباز کو تھوڑی سی وسعت دی جائے تو فطرتاً انسان سہل پسند ہے، اسی لیے کم سے کم محنت اور وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اور مراعات چاہتا ہے۔ انسان کی اسی فطرت نے اسے حرص اور لالچ سے روشناس کرایا اور اسی راستے میں اس کی ملاقات فریب اور دھوکا دہی سے ہوئی۔ فریب اور دھوکا دہی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ انسان خود پرانا ہے۔
برصغیر میں اس کا آغاز کب، کہاں اور کیسے ہوا؟ اس پر کوئی حتمی تاریخ تو نہیں ملتی، ہاں تاریخ میں ہمیں بنارسی ٹھگوں کے قصے ضرور ملتے ہیں۔ دھوکا ایک فعل ہے اور کسی عمل کےلیے استعمال ہوتا ہے جبکہ دھوکہ ایک اسم ہے اور کسی واقعے یا کیفیت کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ جب تک آپ کو غلط بیانی کرکے کسی ایک خاص سمت کی جانب دھکیلا جارہا ہوتا ہے تو آپ کے ساتھ دھوکا ہورہا ہوتا ہے اور جب وہ واقعہ مکمل ہوجاتا ہے تو پھر آپ کے ساتھ دھوکہ ہوا ہوتا ہے۔
ہماری قوم کی دھوکہ کھانے کی تاریخ بہت پرانی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ہم نے ماضی سے نہ سیکھنے کی باقاعدہ قسم کھا رکھی ہے۔ ماضی میں دھوکا دینے والے کے ساتھ کافی مشکلات ہوتی تھی۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ بغیر سامنے آئے وہ آپ کو دھوکا دے تاکہ بعد وہ پہچانا نہ جائے۔ آج کے جدید دور میں اب اس تکلف کی بھی ضرورت نہیں اور اب لوگ دھوکے پر دھوکا دیے چلے جاتے ہیں اور معاشرے میں ’’معتبر‘‘ بھی کہلاتے ہیں
سماجی ذرائع ابلاغ کے آنے سے پہلے ہمارے پاس دھوکا دہی کی تاریخ میں کوپرآیٹو سوسائٹیاں، مختلف نامور کمپنیاں اور ڈبل شاہ موجود تھے۔ یہ سب مل کر قوم کو کتھا چونا اور پتہ نہیں کیا کیا لگا چکے تھے مگر یہ قوم ہے کہ جس نے نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
سماجی ذرائع ابلاغ کی آمد کے ساتھ کچھ مزید نئے قسم کے فراڈ منظر عام پر آئے کہ جن میں اداروں کی جانب سے جھوٹی کال، انعام کا لالچ دے کر پیسے ہتھیانا اور فریب دے کر آپ سے آپ کی مالی تفصیلات لینا اور پھر آپ کا بینک کا کھاتہ خالی کردینا۔ اب جو فریب اس وقت دیا جارہا ہے اور جس کی جانب ہمارے بچوں کو راغب کیا جارہا ہے وہ تو ہماری نسلوں کو اجاڑنے کے مترادف ہے۔
آج کل جوئے کی ایپ کے ذریعے لوگوں کو ناقابل یقین منافع کا لالچ دے کر اس میں پھنسایا جاتا ہے، شاید شروع میں تھوڑا بہت منافع بھی ہوتا ہے لیکن بعد میں یہ راہ ایک ایسی دلدل ثابت ہوتی ہے کہ جس سے نکلنا ناممکن ہوتا ہے۔ انسان نکلنے کےلیے جتنی کوشش کرتا ہے اتنا ہی وہ اس میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ اس راہ میں منشیات، عریاں تصاویر، پورنوگرافی اور پتہ نہیں کیا کیا آتا ہے۔
والدین کےلیے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے جوان بچوں کی ہر قسم کی سرگرمی پر نظر رکھیں۔ ان کا سماجی حلقہ کن لوگوں پر مشتمل ہے؟ ان کے ذرائع آمدنی کیا ہے؟ اور ان کا رہن سہن کا انداز ان کی آمدنی سے مطابقت رکھتا ہے یا اس سے زیادہ ہے؟
اس وقت کا معاشرہ ایک مادر پدر آزاد معاشرہ بن چکا ہے۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ مادی وسائل اور مادی آسائش نے زندگی کی تمام قدروں اور اخلاقیات پر برتری حاصل کرلی ہے۔ بدقسمتی سے تمام ذرائع ابلاغ، معاشرے کے سرکردہ لوگ، ادارے بشمول حکومت، اس کی تبلیغ و تلقین کرتے نظر آرہے ہیں اور اس کی راہ میں آنے والے کو رکاوٹ، دقیانوسی اور معاشرے کا ناکام فرد گردانا جارہا ہے۔
ایک اور بھی بات ہے کہ ہم نے اپنے رزق کا مالک ’’یا رزاق‘‘ کے بجائے پتہ نہیں کس کس کو سمجھ لیا ہے، حالانکہ خالقِ حقیقی ایک اللہ ہی ہے جو اصل میں ہمارے رزق اور جان کا مالک ہے۔ ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے گھر، محلے، شہر اور اردگرد پر نظر رکھیں۔ میرے علم میں ہے کہ ایسی سعی کرنے والے سے معاشرہ کیا سلوک کرتا ہے مگر کسی کو تو یہ علم اٹھانا ہوگا۔ معاشرے کی گراوٹ نے تمام اقدار کے معنی بدل دیے ہیں اور اب ایک ہی قانون رہ گیا ہے کہ ’’باپ بھلا نہ بھیا، سب سے بھلا روپیہ‘‘۔
آج کل لوگوں کو یوٹیوب اور مختلف ایپ پر پیسے بنانے کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس کےلیے ہر طرح کا لالچ دے کر راغب کیا جاتا ہے۔ اس میں حقیقت کتنی ہے؟ اس پر حسب روایت ایک کہانی اور اختتام۔
ایک صاحب نے اخبار میں اشتہار دیا کہ وہ ڈائنوسار کو پکڑنے اور مارنے کے ماہر ہیں۔ ڈائنوسار کو مار کر اس میں سے ایک ہیرا نکلتا ہے جو کہ دس ارب روپے کا بکتا ہے۔ جو یہ ہنر سیکھنا چاہتا ہے بیس لاکھ روپے دے کر میرے کورس میں داخلہ لے لے۔ بہت سے چنو منو اکٹھے ہوگئے اور فیس دے کر بیٹھ گئے۔ استاد جی نے پاور پوائنٹ پر ڈائنوسار کو پکڑنے اور مارنے کے نہایت اعلیٰ اعلیٰ طریقے اسکرین پر دکھائے۔ آخر میں امتحان لیا اور امتیازی نمبر لینے والوں میں اسناد بھی تقسیم کی۔
ایک طالب علم جس نے ٹاپ کیا تھا وہ فوراً جنگل جنگل ڈائنوسار کو ڈھونڈنے نکل گیا۔ پانچ سال کی شدید خواری کے بعد یہ تو پتہ چل گیا کہ ڈائنوسار دنیا سے ختم ہوچکے ہیں۔ مگر اس کی سمجھ میں یہ نہ آیا کہ اگر ڈائنوسار دنیا سے ختم ہوچکے ہیں تو پھر استاد نے یہ علم کیوں سکھایا؟
آخرکار سب جمع پونجی لٹا کر استاد کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوری رام کتھا سنائی اور آخر میں سوال کیا کہ اگر ڈائنوسار دنیا سے ختم ہوچکے ہیں تو پھر یہ علم کیوں سکھایا؟ میں تو بھوکا مررہا ہوں۔ آپ ہی بتائے کہ میں اس علم سے کیسے پیسے کماؤں؟ استاد جی بولے کہ پتر تجھے کس نے کہا تھا کہ تو ڈائنوسار ڈھونڈنے نکل جا؟ شاگرد نے کہا کہ پھر ہیرا کیسے ملے گا؟ اس پر استاد نے کہا کہ بیٹا تو لوگوں کو یہ ہنر سکھا، ڈائنوسار پکڑنے اور مارنے کا اور یہی اصل گر ہے ہیرا پانے کا۔
اس کہانی میں سمجھنے والوں کےلیے نشانیاں ہیں اور سمجھانے والوں کےلیے پریشانیاں ہیں۔ اس لیے اجازت دیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔