غزہ: کہنے سننے کا وقت گیا
farooq.adilbhuta@gmail.com
برادرم افتخار گیلانی نے غزہ کی کہانی کیا لکھی، دل چیر کر رکھ دیا ہے۔ اس کے بعد کہنے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ ہاں اگر دلوں میں احساس کی کوئی رمق باقی ہے تو کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ کیا؟ کرنے کا کام سمجھ میں آ سکتا ہے، اگر حالات کی سنگینی پورے طور پر سمجھ میں آ سکے۔حالات کو سمجھنے کا ذریعہ خبر ہے لیکن واقعات کو اگر مگر کے بغیر بیان کر بھی دیا جائے تو انسانی المیے کی پوری تصویر نہیں بنتی۔ یہ کام کوئی افسانہ نگار ہی کر سکتا ہے جو بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں، بوڑھوں، عورتوں اور مردوں کے کرب کو کسی مصور کی طرح ضمیر عالم کے سامنے نقش کر سکے۔ مصور پاکستان نے جانے کیا سوچ کر کہا ہو گا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
آج غزہ پر جو بیت رہی ہے، اس کا نظارہ تخیل سے فزوں تر ہے۔ افسانہ لکھنے والا اسے تصور کی گرفت میں لانے کی کوشش کرے تو ممکن ہے، تاریخ اس پر اعتبار کر سکے، مفادات کے پانی میں گردن گردن تک ڈوبی ہوئی ہم عصر دنیا اس پر اعتبار نہیں کرے گی۔ اعتبار تو بڑی بات ہے، اس پر توجہ ہی نہیں دے گی پھر غزہ میں اسرائیل کی مسلط کردہ بھوک اور بہیمیت کی حقیقی تصویر سینے میں دل رکھنے والے لوگوں تک کیسے پہنچے؟ یہ کام کوئی صاحب دل ہی کر سکتا ہے جو غزہ پر بیتنے والی قیامت کو خبری اجمال کے بہ جائے فیچر کی زبان میں پیش کرے۔ برادرم افتخار گیلانی نے یہی کیا ہے۔
وہ غزہ میں اپنے رابطوں کو کام میں لائے اور انھوں نے کہیں کسی ایک فرد سے بات کی اور کہیں ایک ایک خاندان کی کہانی سن کر ان کی کیفیت اسی طرح بیان کی ہے جیسی ان مظلوموں پر بیت رہی ہے۔ افتخار گیلانی نے فون پر کسی پرانے دوست کی سرگوشی سنی، تین دن سے جس کے پیٹ میں سوائے ہوا کے کچھ نہیں گیا تھا پھر یہ آواز ڈوب گئی۔ پے درپے مظالم جھیلنے والے سخت جان ہو جاتے ہیں۔ افتخار گیلانی کے اپنے دل و جان پر مقبوضہ کشمیر میں یہ سب بیت چکا ہے لیکن غزہ کے اس دوست کو دوبارہ فون ملانے کی ہمت ان میں اس کے باوجود نہیں۔
افتخار گیلانی نے چھ بچوں کی ایک ماں کی کہانی سنی جو سمندر کا پانی چولہے پر چڑھا دیتی ہے تا کہ وہ کھانے کی امید میں سو جائیں اور اس کے کلیجے کوذرا سی دیر کے لیے ہی، کچھ سکون تو ملے۔ غزہ میں ایسا ایک جگہ نہیں ہوتا، یہ گھر گھر کی کہانی ہے لیکن صد حیف کہ آج کوئی عمر موجود نہیں ہے جو اناج کی بوری کاندھے پر لاد کر غزہ کے بچوں کو مرنے سے بچائے۔
افتخار گیلانی کی بے شمار ایسے لوگوں سے بات ہوئی جنھیں کئی کئی دن کے وقفے کے بعد کبھی کوئی کائی زدہ روٹی ملتی ہے۔ یہ شخص بدبو بھرا لقمہ منھ کی طرف لے جانے کا ابھی ارادہ کرتا ہی ہے کہ اسے کوئی اپنے سے بھی بڑھ کرمستحق دکھائی دے جاتا ہے۔ یوں یہ زہریلا نوالہ کبھی کسی ایک کے پیٹ میں چلاجاتا ہے اور کبھی بھوک کوتقسیم کر لیاجاتا ہے۔ اگر ان مظلوموں کے منھ میں غذا کا کوئی دانہ چلا بھی جاتا ہے تو ایسا انسانی جبلت کے مطابق جینے کے لیے نہیں بچنے کے لیے ہوتا ہے۔ غزہ میں انسانی جبلت بدل چکی ہے۔ افتخار گیلانی کی بیان کردہ کہانی کو پڑھ کر حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا سے دل اٹھ جاتا ہے۔ کھانا پینا منافقت بلکہ ظلم لگتا ہے لیکن اس کے باوجود' دنیا کے منصفوں اور سلامتی کے نام نہاد ضامنوں' کے کان پر ابھی تک جوں تک نہیں رینگی۔
غزہ میں آج پانچ لاکھ افراد کو بھوک اور موت کا سامنا ہے جنھیں بچانے کے لیے روزانہ غذا سے بھرے ہوئے ٥٠٠ ٹرک پہچانا ضروری ہیں لیکن درندہ صفت اسرائیلی صرف ١٠٠ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دیتے ہیں، وہ بھی ترسا ترسا کر۔ امریکا اور اسرائیل کی زیر نگرانی چلنے والے غذائی کیمپ موت کا پھندا بن چکے ہیں جہاں ہزاروں افراد کو تہہ تیغ کر دیا گیا ہے جب کہ رفح کراسنگ پر پانچ ہزار ٹرک اس وقت بھی کھڑے ہیں ، اسرائیل جنھیں غزہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔ غزہ میں پہلے بندوق سے لگ بھگ ایک لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، اب انھیں بھوک سے مارا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال نسل کشی بھی بڑھ کر ہے۔
سوال یہ ہے کہ خون آشام اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کا محاصرہ کیسے ختم ہو گا؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں پھر کیا کیا جائے؟ افتخار گیلانی کہتے ہیں کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ ان کی تجویز ہے کہ غزہ کا محاصرہ ختم کرانے کے لیے مسلم دنیا، یورپ اور سکینڈے نیوین ممالک کے سربراہوں کو حرکت میں آنا پڑے گا۔ یہ تحرک روایتی بیان بازی اور قراردادوں کی منظوری تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ ضروری ہو گیا ہے کہ اب وہ اپنے دارالحکومتوں سے نکل کر رفح کراسنگ پر دھرنا دیں تاکہ غزہ کے محصورین کو غذا کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ یہ قدم غیر معمولی ہو گا، ماضی میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ تاثر درست ہے لیکن غزہ میں جو قیامت توڑی جا رہی ہے، ماضی میں اس کی بھی تو کوئی مثال نہیں ملتی۔ کیا عالم اسلام اور مغربی دنیا کی غیرت مند قیادت یہ تجویز آسانی کے ساتھ قبول کر لے گی؟ میرے خیال میں نہیں۔ اس مقصد کے لیے رائے عامہ ہموار کرنی پڑے گی۔ کیا مسلم دنیا کے درد دل رکھنے والے عوام اس نیک مقصد کے لیے عوامی دبا ؤپیدا کرنے کے لیے گھروں سے نکلیں گے؟
آج کا کالم بس اتنا ہی، یہ کہنے سننے کا نہیں، کچھ کرنے کا وقت ہے۔