اردو یونیورسٹی؛ تنخواہوں و پینشنز کی عدم ادائیگی پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں وائس چانسلر طلب

صرف درخواست دینے پر اساتذہ کو معافی مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو تعلیمی وقار اور انصاف کے منافی ہے

کراچی:

وفاقی اردو یونیورسٹی میں انتظامی بدحالی اور تنخواہوں و پینشنز کی عدم ادائیگیوں کے معاملات ایوان تک جاپہنچے ہیں اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے اس معاملے پر پیر کو ہونے والے ایک اجلاس میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو طلب کر لیا ہے ۔

اس اجلاس میں وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی کے علاوہ قومی اسمبلی کے اراکین سمیت 21 ممبرز شریک ہورہے ہیں جو اس معاملے کا جائزہ لیں گے وفاقی اردو یونیورسٹی میں تنخواہوں اور پینشنز کی عدم ادائیگی،  میڈیکل الائونسز کی معطلی اور فیکلٹی پر اضافی ورک لوڈ ڈالنے کے معاملے کی یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف شکایت اردو یونیورسٹی کے اساتذہ کی جانب سے قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کو کی گئی تھی یہ شکایت اسلام کیمپس کے اساتذہ کی جانب سے کراچی کیمپس کے بعض اساتذہ کی مشاورت کے بعد کی گئی جس کے بعد قائمہ کمیٹی نے اس معاملے پر اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضابطہ شنواری کو طلب کرتے ہوئے معاملے کو اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔

 قائمہ کمیٹی کو یونیورسٹی فیکلٹی کی جانب سے موصولہ شکایت میں اساتذہ نے فیکلٹی کے  مسائل کے فوری حل کے لیے وفاقی تعلیمی اداروں کی نگرانی کے تحت قائمہ کمیٹی سے مداخلت کی درخواست کی تھی اور لکھے گئے خط میں چیئرمین قائمہ کمیٹی سے گزارش کی تھی کہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں تنخواہیں زیر التواء ہیں 2 سے 3 ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی گئیں جبکہ          ہاؤس الاؤنس کی عدم ادائیگی 12 ماہ سے بند ہے اور ہاؤسنگ سیلنگ ایک سال سے زائد عرصے سے ادا نہیں کی گئی۔

اسی طرح طبی سہولتوں کا عملی خاتمہ کر دیا گیا ہے مزید یہ کہ اساتذہ پر بے تحاشہ تدریسی بوجھ ڈال دیا گیا ہے  اساتذہ کو چھ چھ کورسز پڑھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو کہ اس سلسلے میں رائج معیار سے زیادہ اور وائس چانسلر کی اپنی کمیٹی کی سفارشات کے خلاف ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ بغیر معاوضہ اساتذہ کو گرمیوں کے سیمسٹرز میں بھاری تدریسی بوجھ اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے مگر اس کے عوض کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتاحالانکہ یونیورسٹی طلبہ سے کروڑوں روپے فیسوں کی مد میں وصول کرتی ہے تدریسی عملے کو صرف 20 دن کی سالانہ رخصت دی جاتی ہے، جب کہ غیر تدریسی عملے کے لیے یہ چھٹی48 دن ہے، اس پالیسی میں کوئی اصلاح نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اساتذہ کو سخت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

8 نکاتی خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب اساتذہ احترام کے ساتھ اپنی شکایات انتظامیہ کے سامنے رکھتے ہیں تو انھیں حل کرنے کے بجائے ان کے خلاف اقدامات کیے جاتے ہیں جیسے وضاحت طلب خطوط اور انکوائری کمیٹیاں وغیرہ اور اس انتقامی رویے کی وجہ سے اساتذہ کو توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صرف درخواست دینے پر انہیں معافی مانگنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو تعلیمی وقار اور انصاف کے منافی ہے۔

 خط میں یونیورسٹی  سنڈیکیٹ کی تشکیل پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ سینڈیکیٹ نامکمل اور غیر قانونی ہے اہم عہدوں پر موجود لوگ قائم مقام ہیں غیر نامزد ڈینز اور دیگر کلیدی اسامیوں کی وجہ سے یونیورسٹی آرڈیننس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من مانی طور پر چلائی جا رہی ہے۔

لہٰذا قائمہ کمیٹی اپنے پارلیمانی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان مسائل کا فوری نوٹس لے اور یونیورسٹی انتظامیہ کو وضاحت کے لیے طلب کیا جائے۔ تنخواہوں، واجبات اور طبی سہولتوں کی فوری بحال کا حکم جاری کیا جائے، گرمیوں کی تدریس کا منصفانہ معاوضہ یقینی بنائے، اساتذہ کو انتقامی کارروائی اور ہراسانی سے بچایا جائے اور یونیورسٹی آرڈیننس کے تحت سنڈیکیٹ کی قانونی تشکیل نو کا حکم دیا جائے۔

Load Next Story