تیزی سے جنم لیتی ایک کثیر قطبی دنیا میں پاکستان عالمی طاقتوں کے درمیان اپنا راستہ بنانے کی مثبت کوششیں کر رہا ہے۔عالمی سطح پر سرگرم ہونے کے باوجود پاکستان کی اولیّن ترجیح چین کے ساتھ اپنی قابلِ اعتماد شراکت داری کو مضبوط بنانا ہے جو ہمارا ہر موسم کا دوست ہے۔مگر اس دوران ہمیں دیگر طاقتوں کے ساتھ بھی تعمیری روابط جاری رکھنے ہیں۔
پاکستان طویل عرصے سے عالمی سطح پر ایک فرنٹ لائن ریاست رہا ہے اور اب بھی امریکا اور چین کے درمیان ابھرتے ہوئے تنازع میں جغرافیائی۔سیاسی ہاٹ اسپاٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک نازک صورت حال ہے جس نے پاکستان کو پر خطر راستے پر چلنے پر مجبور کیا ہے اور جس پر چلنا بعض مواقع پر بہت چیلنجنگ ہوجاتا ہے تاکہ اپنے قومی مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
پاکستان اور چین کے درمیان گزشتہ چند دہائیوں سے ایک خاص تعلق رہا ہے جو باہمی اعتماد، اسٹریٹجک تعاون اور مشترکہ ترقیاتی اہداف پر مبنی ہے۔ دوسری طرف پاکستان امریکا کا بھی ایک اہم غیر نیٹو اتحادی بھی رہا ہے، چاہے وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا سرد جنگ کا زمانہ۔
دوطرفہ تعاون کی ایک نمایاں مثال’’چین-پاکستان اقتصادی راہداری‘‘ (CPEC) ہے جو 2013 ء میں شروع کی گئی تھی۔ اس کے بعد سے اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی، بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں میں 62 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہوئی، جس سے تقریباً 1,20,000 مقامی ملازمتیں پیدا ہوئیں اور بجلی کی کمی میں تقریباً 30 فیصد تک کمی آئی۔ گوادر، رشکئی اور دھابیجی میں خصوصی اقتصادی زونز، ہائی ویز اور بجلی گھر اس منصوبے کے نمایاں حصے ہیں جنہوں نے چینی اور پاکستانی سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا ہے۔
اسلام آباد اور بیجنگ نے ایسے مالیاتی طریقہ کار متعارف کروائے ہیں جو مالیاتی رعایتوں ( concessional financing) پر مبنی ہیں اور جن کا مرکز پائیداری ہے۔ حالیہ معاہدے میں چین نے پاکستان کے 3.4 ارب ڈالر کے قرضے کو رول اوور کیا، 2.1 ارب ڈالر کے مرکزی بینک ذخائر کی ری فائنانسنگ کی اور 1.3 ارب ڈالر کے تجارتی قرضے کو ری اسٹرکچر کیا۔ یہ اقدام آئی ایم ایف کی شرط سے اوپر ذخائر رکھنے میں مددگار ثابت ہوا اور پاکستان کو مالیاتی گنجائش فراہم کی۔
اس قسم کا قرض یہ انتظامی ماڈل ظاہر کرتا ہے کہ چین محض اپنے مختصر مدتی مفادات نہیں بلکہ پاکستان کی طویل مدتی اقتصادی خوشحالی پر توجہ دیتا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اگرچہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں دوستی کا پہلو موجود ہے، لیکن اپریل 2023 ء میں آئی ایم کے توسیعی فنڈ سہولت (7 ارب ڈالر) کی منظوری اور مئی 2025ء میں اس کی پہلی جائزہ میٹنگ کے لیے تعاون واشنگٹن اور بیجنگ ،دونوں کے ساتھ پاکستان کے عملی اور متوازن سفارتی رویّے کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسے ایسے ترقیاتی ڈھانچے زیادہ پسند ہیں جو چین کی طرف سے فراہم کیے گئے ہوں، کیونکہ وہ خودمختاری کا احترام کرتے اور باہمی فائدے کا باعث بنتے ہیں۔
پاکستان ہمیشہ کثیرالجہتی عالمی فورمز میں چین کی قیادت میں جنم لیتے ’’گلوبل ساؤتھ‘‘ کے ساتھ ہم آہنگی کا ماڈل بنانے کا پُرزور حامی رہا ہے۔ 2024 ء میں پاکستان نے برکس( BRICS )کی رکنیت کے لیے باضابطہ درخواست دی جسے چین کی حمایت حاصل تھی اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کی میزبانی کی۔
ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا بیانیہ فروغ دینا چاہتا ہے جو امریکا کی زیرقیادت عالمی نظام سے مختلف ہو۔ پاکستان نے چین کی اصطلاحات مثلاً مساوی ترقی، قرض میں نرمی اور خطوں کو جوڑنے جیسے تصّورات کو اپنایا ہے، اور بین الاقوامی سطح پر چینی منصوبوں میں ایک ’’مستفید ہونے والے‘‘ اور ’’شریک ڈیزائنر‘‘، دونوں کا کردار ادا کر رہا ہے۔
پاکستان کی معیشت تین اہم ستونوں پر کھڑی ہے: سی پیک، آئی ایم ایف کے ساتھ مالی لین دین اور مختلف ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے (FTA)۔ یہ تینوں عناصر پاکستان کی جغرافیائی توازن کی کوششوں کے لیے ضروری معاشی بنیادیں فرایم کرتے ہیں۔ ان پالیسیوں کا مقصد پاکستانی معیشت کو متنوع بنانا ہے تاکہ ٹیکس آمدنی، برآمدات اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو، نہ صرف سپر پاورز کی جانب سے بلکہ خلیج، آسیان اور وسطی ایشیائی ممالک سے بھی۔
پاکستان سفارتی میدان میں اپنی شناخت کو دوبارہ متوازن کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے دوستی و شراکت داری کے ایک ’’پل‘‘ کے طور پر دیکھا جائے نہ کہ کسی جنگی میدان کے طور پر۔ 2024-2025 ء میں پاکستان نے برکس میں شمولیت کی باضابطہ درخواست دی (روس کی حمایت کے ساتھ) اور شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی اجلاس کی میزبانی کی جو گلوبل ساؤتھ میں اس کی واضح اور ابھرتی ہوئی حیثیت ظاہر کرتی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں پاکستان نے چین کے ساتھ اپنی "آہنی دوستی" کی توثیق کی، جبکہ امریکا کے ساتھ محدود لیکن قریبی تعلقات بھی برقرار رکھے۔ انسانی حقوق کے معاملات اور امریکا کے بھارت کی طرف اسٹریٹجک جھکاؤ جیسے جغرافیائی خدشات کے باوجود امریکی پالیسی ساز پاکستان کے کردار کو ایشیا میں ’’ایٹمی استحکام‘‘ برقرار رکھنے اور ’’دہشت گردی کی روک تھام‘‘ کے حوالے سے اہم سمجھتے ہیں۔
یہ قابلِ ذکر ہے کہ 2025 ء میں صدر ٹرمپ اور پاکستانی آرمی چیف کے درمیان غیر معمولی ملاقات نے امریکا کی پاکستان میں نئی دلچسپی کو اجاگر کیا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ایشیا پیسفک میں چین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان نے روس کے ساتھ توانائی معاہدوں اور تجارتی اجلاسوں کے ذریعے تعلقات کو تازہ کیا ہے اور خلیجی ممالک، ایران، اور وسطی ایشیائی ہمسایوں سے تعلقات کو وسعت دی ہے۔
سیکیورٹی کے معاملے میں پاکستان کا توازن برقرار رکھنا ایک نازک امر ہے۔ چین چاہتا ہے کہ سی پیک کے اثاثوں کی سیکیورٹی مزید بہتر ہو، خاص طور پر 2024 ء کے داسو خودکش حملے کے بعد، جس میں چینی کارکن ہلاک ہوئے۔جے ایف۔ 17 لڑاکا طیاروں کی تیاری اور میزائل منتقلی میں تعاون دونوں ممالک کے درمیان گہرے فوجی تعلقات کو ظاہر کرتا ہیلیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ چینی دباؤ کا دروازہ بھی کھولتا ہے جب سیکیورٹی حملے ہوتے ہیں۔
سرحد پار عسکریت پسندی (فتن الخوارج) اور بلوچ بغاوتیں (فتن الہندوستان) پاکستانی و غیرملکی شہریوں کے لیے خطرہ ہیں اور پاکستان کی ساکھ کو چیلنج کرتی ہیں۔ اس لیے پاکستان کو اپنی داخلی سیکیورٹی مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ امریکا اور چین کی رقابت پاکستان کے لیے سیکیورٹی اور معیشت ،دونوں کے حوالے سے ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس کا حل ایک ’’محتاط حکمت عملی‘‘ میں ہے جو بیجنگ کے ساتھ آزمودہ تعلقات پر مبنی ہو لیکن ساتھ ساتھ خلیجی، آسیان، افریقی اور وسطی ایشیائی ممالک سے روابط بڑھانے پر بھی زور دے۔
چین کے ساتھ شراکت داری نے پاکستان کے لیے سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے انفراسٹرکچر، تجارت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے بے مثال مواقع پیدا کیے ہیں جو خود انحصاری اور عوامی خوشحالی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اسی دوران دیگر طاقتوں کے ساتھ متوازن تعامل سے نہ صرف چینی سرمایہ کاری کو مضبوط کیا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان کی غیر جانب دار سفارت کاری کو بھی تقویت مل سکتی ہے۔
آخر میں اگر پاکستان چین کے وژن کے تحت ایک متوازن گلوبل ساؤتھ کو فروغ دینے میں کردار ادا کرے ، جیسے کہ شنگھائی تعاون تنظیم ، برکس پلس اور اسلامی تعاون تنظیم (OIC) جیسے کثیرالملکی اداروں کے ذریعے تو یہ مشرق اور مغرب دونوں کی ترقی میں ایک’’پْل‘‘ کا کردار ادا کر اور عالمی سطح پر اپنی قدر و قیمت بڑھا سکتا ہے۔
یہ یاد رہے، آنے والی تین دہائیوں میں عالمی نظام میں ڈرامائی تبدیلی متوقع ہے جس میں برکس ممالک، خاص طور پر چین ابھرتی ہوئی طاقتوں کے طور پر سامنے آئیں گے۔ خریداری کی طاقت (Purchasing Power Parity) کے لحاظ سے چین، بھارت اور روس پہلے ہی دنیا کی چار بڑی معیشتوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
اگرچہ امریکہ کا زوال بتدریج ہوگا، مگر ایک بات یقینی ہے: مستقبل کا عالمی منظرنامہ مکمل طور پر مختلف ہوگا، جہاں ٹیکنالوجی عالمی امور کے ہر پہلو کو متحرک کر رہی ہوگی۔ مغرب اب عالمی طاقت کا بلا مقابلہ مرکز نہیں رہے گا۔
عالمی طاقتوں کے توازن میں اس بڑے پیمانے پر تبدیلی کے پیش نظرپاکستان کے پالیسی سازوں کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آئندہ برسوں میں پاکستان جو فیصلے کرے گا، وہی طے کریں گے کہ ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں اس کی حیثیت کیا ہوگی۔
اس ضمن میں پاکستان کی سابق سفیر اور ممتاز دانشور،ڈاکٹر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے، پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی اور سفارتکاری میں ’’سافٹ پاور‘‘ (نرم طاقت) کو شامل کرنا ہوگا تاکہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو مضبوط کیا جا سکے۔ اسلام آباد میں ایشیا اسٹڈی گروپ کے ارکان سے گفتگو کرتے ہوئے، جن میں معروف مورخ ،ڈاکٹر دْشکا سیدبھی شامل تھیں، ڈاکٹر لودھی نے سافٹ پاور کی تعریف یوں کی: "دوسروں کو قائل کرنے اور متوجہ کرنے کی صلاحیت جو سخت طاقت ( Power Hard) سے مختلف ہے کیونکہ سخت طاقت عسکری و معاشی قوت پر انحصار کرتی ہے۔ جبکہ کسی ملک کی سافٹ پاور کا منبع اس کی’ثقافت، اقدار اور خارجہ پالیسی کا رویّہ‘ہوتا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: بہت سے ممالک بشمول عالمی طاقتیں سافٹ پاور کو مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی اثر پذیری اور بین الاقوامی اثر و رسوخ کو بڑھا سکیں۔ ڈاکٹر لودھی کے مطابق موجودہ ’’کثیر قطبی دنیا‘‘ ( World Multipolar ) میں جہاں طاقت مختلف ممالک کے درمیان بکھری ہوئی ہے، سافٹ پاور کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو گیا ہے۔انہوں نے سافٹ پاور کی اہمیت بڑھانے والے چار بنیادی عوامل کی نشاندہی کی:
(1) دنیا کی کثیر قطبی سمت میں منتقلی
(2)عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی مسابقت پذیری
(3)عالمی رائے عامہ کی بڑھتی ہوئی اہمیت جو کسی ملک کی شبیہ بنانے میں کردار ادا کرتی ہے
(4)ڈیجیٹل دور کے ذریعے عالمی سطح پر مثبت پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے مواقع
ڈاکٹر لودھی نے کہا کہ دور جدید میں ’’برانڈنگ ‘‘آج کی سفارتکاری کا ایک اہم ہتھیاربن چکا ہے اور ممالک آرٹ، موسیقی اور ادب کے ذریعے عالمی سطح پر اپنی مثبت تصویر پیش کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ مختلف سرکاری ونجی منصوبے بناتے ہیں تاکہ اپنی سافٹ پاور کی عالمی سطح پر ترویج کر سکیں۔
انہوں نے دوطرفہ (bilateral) اور کثیرالطرفہ (multilateral) سفارتی کرداروں میں اپنے تجربے کی روشنی میں وضاحت کی کہ عوامی سفارتکاری ( Diplomacy Public) کے اقدامات کیسے کسی قوم کی بین الاقوامی شناخت کو بہتر بنا اور سفارتی کامیابیوں میں مدد دے سکتے ہیں۔