دو پیالیوں کے درمیان سلور اکانومی

کام کو صرف روزگار نہ سمجھیں بلکہ زندگی کی معنویت کا ذریعہ بنائیں

النومْ اخو الموت۔ (نیند، موت کی بہن ہے)

لیکن ہر صبح زندگی شروع کرتے ہوئے چائے کی پیالی کیا کردار ادا کرتی ہے؟ سبحان اللہ۔ طلوع ہوتا ہوا مہربان سورج اور نرم گرم بستر اور ہاتھ میں چائے کی پیالی۔ جی چاہتا ہے کہ وقت یہیں رْک جائے۔ نیند اور کام کے درمیان ایک جنت۔ اور حوروں کے بکھیڑے سے بھی دور۔ خود کے ساتھ ایک جشن۔

نیوٹن اور ایچ جی ویلز کے مشاہدات کا تصور کریں۔ اگر نیوٹن کے ہاتھ میں سیب کے بجائے چائے کی پیالی ہوتی تو وہ ’’کشش ثقل‘‘ کی بجائے ’’کشش بستر‘‘ پر توجہ دیتا۔

اور ویلز کی ٹائم مشین کا واحد مقصد ؎

اے وقت ذرا تھم جا!

آثار یہ سارے ہیں اْس شخص کے آنے کے (امجد اسلام امجد)

لیکن یقین مانیے وہ شخص کوئی اور نہیں آپ خود ہی ہیں۔ سو خود کے ساتھ جشن منائیں اور مصروف ِ عمل ہوں۔

صبح کی چائے روایتی طور پر محبت، اور آغازِ کار کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ مگر جب یہ بے عملی یا التوا کی طرف مائل کرے۔ اور کان میں کہہ رہی ہو ’’آج نہیں کل۔‘‘ آج تو دْنیا میرے بغیر بھی چل سکتی ہے۔ ایسے میں یہ محبت کی بجائے زہر ہے۔ آج کا دن ہی حال Present ہے۔ ایک تحفہ ہے خالق کی طرف سے۔ ایک موقع ہے ثابت کرنے کا کہ آج نیند سے بے کار نہیں اْٹھایا گیا ہوں۔

عالمی کساد بازاری، ناہموار معیشت اور بے روزگاری سے انکار ممکن نہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے کام نوجوانوں کے جوش و جذبہ کے شایانِ شان نہیں ہوتے۔ اْن کی بھرپور جوانی اور توانائی کے جِن کو بوتل میں قید کرنے کے مترادف ہے۔ جو انہیں وقت سے پہلے بیکار کر دیتا ہے۔

بہت سے کام زیادہ تحمل اور تدبر کے متقاضی ہوتے ہیں، جن کے لیے پختہ عمر کے افراد زیادہ موزوں ہیں۔ افسوس کہ ہم نے اِن تجربہ کار افراد کو گوشہ نشین کر دیا ہے، حالانکہ ان کی دانش نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے ناگزیر ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کام کو صرف روزگار نہ سمجھیں، بلکہ اسے زندگی کی معنویت کا ذریعہ بنائیں۔ ہر فرد، ہر عمر، ایک مقصد کے ساتھ جْڑا ہو، یہی ایک بیدار اور متحرک قوم کی پہچان ہے۔

اِس سلسلہ میں سب سے پہلے ذمہ دار تو پختہ العمر افراد ہیں کہ وہ معاشرہ کے لئے کارآمد رہیں۔ تمام عمر وہ معاوضہ پر خدمتِ خلق کرتے رہے۔ اب کچھ وقت معاشرہ کو بلا معاوضہ یا رسمی اعزازیہ پر نوازیں۔ یہ اْن کی اپنی ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے ضروری ہے۔

پختہ العمر آبادی میں اضافہ کو یورپ میں چیلنج کی بجائے ایک موقع سمجھا جا رہا ہے۔ اور سلور اکانومی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ایسے افراد کے تحفظ، سماجی شمولیت اور فعال زندگی گزارنے میں سہولیات دی جا رہی ہیں۔ حکومتوں کے اپنے بکھیڑے ہیں۔ لیکن سینئرسٹیزن بل 2025 اس مشکل دور میں بھی حکومت پنجاب کے کریڈٹ پر رہے گا۔ یقیناً ہر کام حکومت پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

اس معاملہ میں بھی رفاہی اداروں کو آگے آنا ہوگا۔ خصوصاً ایسے ادارے جن کا بجٹ کم ہے کہ وہ ایسے مواقع پیدا کریں کہ پختہ عمر کے افراد برائے نام معاوضہ پر اْن کے کام آ سکیں۔ اِن اداروں کی مالی مدد کے ساتھ ایسے افراد کی ذہنی اور جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ معاشرتی اْلجھنوں میں بھی خاطر خواہ کمی ہوگی۔

چائے کی پہلی پیالی کے بعد اگر واحد نصب العین اگلی پیالی ہو اور درمیان میں ایک مہیب دن اور کرب ناک رات ہو۔ تو ایسے دن رات مایوسی کو ہی جنم دیں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں پیالیوں کے درمیان امید سحر ہو۔ ورنہ زندگی برف کا بیابان بن جائے گی۔

(مصنف کئی برس قومی ایئر لائین سے وابستہ رہے اور بطور ہیڈپرسر ریٹائر ہوئے۔)

Load Next Story