کوئی پرسان حال ہو تو کہوں۔۔۔!
ہر سال مون سون کے موسم میں بارشیں جب غیر معمولی طور پر شدت اختیار کر لیں تو دریاؤں اور ندی نالوں میں پانی کا بہاؤ نہ صرف حد سے تجاوز کر جاتا ہے بلکہ رفتار کی تیزی کے باعث کناروں اور بندوں کو توڑتا ہوا باہر نکل کر آبادیوں کو بھی ڈبو دیتا ہے۔ گزشتہ ماہ خیبرپختونخوا، کشمیر، گلگت بلتستان، پنجاب اور سندھ میں شدید بارشوں اور گلیشیئر کے پگھلنے کے باعث سیلابی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔
سیکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے، گھر سے بازار، اسکول یہاں تک کہ پورے پورے دیہات پانیوں میں ڈوب گئے، ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ جانی نقصان کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مالی نقصانات بھی برداشت کرنا پڑے۔ صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت نے اپنی بساط کے مطابق سیلابی صورت حال سے نمٹنے کی مقدور بھر کوششیں کیں جس میں پاک فوج نے امدادی کاموں میں حسب سابق اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کیا۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق رواں ماہ میں بھی خطرناک بارشوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور سیلابی صورت حال میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔
ابھی قوم گزشتہ بارشوں کے المیے سے پوری طرح سنبھل بھی نہ پائی تھی کہ بھارت نے آبی جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا۔ مئی 2025 کی جنگ میں پاکستان نے بھارت کو جس عبرت ناک شکست سے دوچار کیا تھا وہ اس کے زخم آج تک چاٹ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دشمن شکست کھانے کے بعد بدلے اور انتقام کی آگ میں جلتا رہتا ہے، بھارت بھی آج کل اسی کیفیت سے گزر رہا ہے۔
پہلگام سانحے کی آڑ میں اس نے پاکستان پر نہ صرف جنگ مسلط کی بلکہ سندھ طاس معاہدہ معطل کرکے پاکستان کا پانی روک لیا اور مودی سرکار کے ہمنو ا دعوے کرتے رہے کہ وہ پاکستان کو پانی کی بوند بوند سے ترسا دیں گے۔ عالمی ثالثی عدالت نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے پاکستان کے حق میں فیصلہ جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کر سکتا، اسے معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا، لیکن بھارت نے ثالثی عدالت کے فیصلے کو ماننے سے بھی انکار کر دیا۔
اب جب شدید بارشوں نے بھارت میں تباہی مچائی اور پانی روکنا اس کے بس میں نہ رہا تو حسب سابق اس نے آبی جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان آنے والے تین دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس میں پانی چھوڑ دیا جس نے پنجاب کے 50 فی صد سے زائد علاقوں کو سیلابی ریلوں میں ڈبو دیا۔ سیکڑوں دیہات ڈوب گئے، کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں، مال مویشی تیز سیلابی ریلوں میں بہہ گئے، لوگ محفوظ مقامات پر محصور ہو گئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سیلابی علاقوں کا دورہ کرکے صورت حال کا جائزہ لیا اور متاثرین کو ہر ممکن امداد فراہم کرنے کے سخت احکامات دیے۔
پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مقامی انتظامیہ کی امدادی ٹیموں کے ہمراہ پاک فوج کے جوان بھی اپنی روایتی خدمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کی بھرپور امداد کر رہے ہیں۔پنجاب کے سیلاب سے شدید متاثرہ علاقوں میں گوجرانوالہ ڈویژن، سیالکوٹ، سرگودھا، لاہور، جھنگ، چنیوٹ، حافظ آباد، لودھراں وغیرہ شامل ہیں۔ دریائے راوی، ستلج اور چناب میں اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ بعض اضلاع اور علاقوں کو سیلاب سے بچانے کے لیے بند توڑ دیے گئے۔ ہیڈ قادر آباد کے علاقے کو سیلابی ریلوں سے محفوظ رکھنے کے لیے دریائے چناب کے دو بند توڑنے پڑے۔ محکمہ موسمیات نے سندھ میں بھی شدید بارشوں اور سیلاب کی پیش گوئی کی ہے ملک کے صنعتی حب کراچی میں بھی ’’اربن فلڈ‘‘ کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ہنگامی سیلابی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کو ہائی الرٹ کرتے ہوئے ضروری ہدایات دے دی ہیں۔بارشیں اور سیلاب ہر سال آتے ہیں اور قوم کو ایک نئی آزمائش میں ڈال دیتے ہیں۔ حکمران ہر سال دعوے کرتے ہیں کہ بارشوں اور سیلاب سے نمٹنے کے لیے فول پروف اقدامات کر رہے ہیں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے بڑے ڈیمز بنائیں گے، موسمی تبدیلیوں سے پیدا صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں گے، لیکن افسوس کہ سارے دعوے اور وعدے صرف اخباری بیانات تک محدود رہتے ہیں۔ سیلابی پانی اترتے ہی حکمرانوں کے دعوؤں کا بھوت بھی اتر جاتا ہے اور لوگ ہر سال سیلابی پانیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔
معیشت کیسے مستحکم ہوگی؟ کب تک ہم غیر ملکی امداد کے سہارے جئیں گے؟ وزیر اعظم شہباز شریف نے فرمایا کہ موسمیاتی تبدیلی اور مون سون کے اثرات سے بروقت نمٹنے کے لیے موثر پالیسی تیار کی جائے گی۔ تمام صوبوں کی مشاورت سے آبی ذخائر بنائیں گے۔ کیا کالا باغ ڈیم بن جائے گا؟ افسوس کہ ہر قومی مسئلے کو بھی سیاسی رنگ دے کر سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو سیلابی ریلے ساری معاشی ترقی بہا کر لے جائیں گے۔ عوام تو مجبور و بے بس ہیں بقول شاعر:
کوئی پرسان حال ہو تو کہوں