اسلام آباد کے پٹوار خانوں میں پرائیویٹ افراد کے کام کرنے پر جسٹس محسن اختر برہم

اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور وزارت داخلہ نے پٹواریوں کی 35 خالی آسامیاں پُر کرنے کی منظوری دے دی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے پٹوار خانوں میں پرائیویٹ افراد کے کام کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے سیکرٹریز سمیت نیچے کسی کے بس کی بات نہیں، وزیر کو بلانا پڑے گا۔

اسلام آباد کے پٹوار خانوں میں پرائیویٹ افراد کے کام کرنے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔

دوران سماعت، اسٹیٹ کونسل عبد الرحمٰن نے اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور وزارت داخلہ کی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ اسٹبلشمنٹ ڈویژن اور وزارت داخلہ نے پٹواریوں کی 35 خالی آسامیاں پُر کرنے کی منظوری دے دی جبکہ وزارت خزانہ نے تاحال اسامیاں پُر کرنے کی منظوری نہیں دی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ امید ہے کہ وزارت خزانہ و حکومت خالی اسامیوں کو جلدی پُر کریں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے پٹواریوں کی پوسٹوں پر خزانہ خالی ہوگیا ہے، کوئی ان کو پُر کرنے کو تیار نہیں۔ کورٹ اسٹبلشمنٹ ڈویژن کے ماتحت نہیں ہے فیڈرل گورنمنٹ خود اپنا کام کرے، فنانس والوں کو بلاوں گا تو وہ کچھ اور کہہ دیں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ سوائے عوام کے باقی ہر کسی کے لیے کام ہو جاتا ہے۔ چیف کمشنر، ڈی سی لوگوں کے لیے کام کریں صرف حکومت اور اداروں کے لیے کام نہ کریں، چیف کمشنر و بیوروکریسی لوگوں کو بس گھوماتے ہیں۔

کیس میں جسٹس محسن نے ریمارکس دیے کہ اگر کام نہیں کر سکتے تو انکار کر دیں ہم آرڈر کر دیں گے، سات پٹواری دیگر پرائیویٹ افراد کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت اگلے ماہ تک ملتوی کر دی۔

Load Next Story