کوچۂ سخن

چلنے لگیں پھر سرد ہوائیں  ہم دل کو اب کیا سمجھائیں 

فوٹو: فائل

غزل
چلنے لگیں پھر سرد ہوائیں 
ہم دل کو اب کیا سمجھائیں 
تیری یاد اور لمبی راتیں 
تارے گن گن ہم تھک جائیں
تیرے بن کیا خاک ہے جینا 
اس جیون کو آگ لگائیں
ہر آہٹ پر ہم یہ سمجھے
شاید اب وہ آ ہی جائیں
اُن کو گھر جانے کی جلدی
ہم چاہیں، وہ آج نہ جائیں
دیوانے کا خواب ہے چاہت
آنکھ کُھلے تو کچھ نہ پائیں
تو ہی کوئی تدبیر بتا دے 
ہم دل کو کیسے سمجھائیں
رات فریدی ؔبھیگ چلی ہے
سو جا، نہ دے دل کو سزائیں
 (موج دین فریدی۔ پاکپتن)

غزل
کبھی عجلت کبھی تاخیر کا دکھ سمجھے گی
زندگی وقت کی تاثیر کا دکھ سمجھے گی
نیند آئے گی تو ہو گی وہ مناظر کی اسیر 
خواب دیکھے گی تو تعبیر کا دکھ سمجھے گی
اتنا آساں نہیں نیزے پہ تلاوت کرنا 
کیسے دنیا بھلا شبیر کا دکھ سمجھے گی
میں تو سمجھا تھا کہ آئے گی وہ ملنے مجھ سے 
دل کا دکھ سمجھے گی دل گیر کا دکھ سمجھے گی
جیت کر آؤں گا میدانِ اجل سے اور وہ 
میری ٹوٹی ہوئی شمیر کا دکھ سمجھے گی
کیسے رستوں کو خبر ہو گی کہ میں گزروں گا 
کیسے منزل ترے رہ گیر کا دکھ سمجھے گی
کیا پتا کب اسے آئے گا مرا لکھا سمجھ
کیا خبر کب مری تحریر کا دکھ سمجھے گی
ہو گا ہم زاد مرا مرکزی کردار اس کا 
وہ کہانی جو اساطیر کا دکھ سمجھے گی
لفظ و معنی کے خرابے سے نکل کر اک دن
شاعری میر تقی میر کا دکھ سمجھے گی
جس کی بنیاد میں لغزش ہے وہ تمثال اگر 
خشت رکھتے ہوئے تعمیر کا دکھ سمجھے گی
بات کب اس کو سمجھ آئے گی تمثالوں کی 
رات کب زلفِ گرہ گیر کا دکھ سمجھے گی
ترجمہ کر کے میں اشکوں کا چلا جاؤں گا
متن پڑھ پڑھ کے تفاسیر کا دکھ سمجھے گی
میں نہ سمجھا تو اجل آ کے تفاوت کی طرف
میرے سینے میں لگے تیر کا دکھ سمجھے گی
ایک دیوار ہی دیوار کا سوچے گی کمالؔ
ایک تصویر ہی تصویر کا دکھ سمجھے گی
(پیر اسد کمال۔ اٹک)

غزل
جو خود بُنی ہیں انہی رسیوں سے باندھے ہوئے 
یہ چھوٹے لوگ، بڑی خواہشوں سے باندھے ہوئے 
زمین پاؤں سے، سایہ سروں سے کھینچا گیا 
اٹھا کے پھینک دیے، کرسیوں سے باندھے ہوئے 
وہ جسم و چشم جو اک خواب کی تڑپ میں تھے 
وہی گھسیٹے گئے، گاڑیوں سے باندھے ہوئے 
یہ اپنے صبر کی حد ہے، تمہیں دکھائی نہ دے 
بہت سے کیل پھٹی ایڑیوں سے باندھے ہوئے 
ہمارے سر تھے، چمکتے رہے سرِ نیزہ 
ہمارے بازو، گڑی سولیوں سے باندھے ہوئے
گرہ کشائی، پرانی گرہ کی جانتے تھے 
مگر یہ دھاگے، نئے اٹکلوں سے باندھے ہوئے 
ہمارے خون سے دہکی ہوئی تھی بھٹی بھی 
ہمارے چہرے تری چمنیوں سے باندھے ہوئے 
(قیوم طاہر۔ راولپنڈی)

غزل
ڈرتے ہیں سوچ کر کہیں ایسا ہوا نہ ہو 
سب کچھ ہوا ہو اور بتایا گیا نہ ہو 
سورج پہ پاؤں رکھنے کی ہمت نہیں ہوئی
محشر کہیں وہاں پہ ازل سے بپا نہ ہو
یوں بھی نہیں مذاق فرشتوں کے واسطے 
ہم پر ہنسیں وہ جن کا کبھی سر جھکا نہ ہو
کچھ اس لیے بھی پاس نہیں آئینہ کوئی
میں چاہتا ہوں گھر میں کوئی تیسرا نہ ہو
تجھ کو نظر نہ آیا میری چشم تر کے بیچ 
وہ اِک دیا جو طاق پہ اکثر جلا نہ ہو
ایسے قریب آو کہ بھر جائیں سب خلا
دستِ دعا اٹھائیں تو حرفِ دعا نہ ہو
(رضوان مقیم۔ فیصل آباد)

غزل 
مرا دل اک امانت ہے اسے تم تھام کر رکھنا
اسی دل کی یہ خواہش ہے تمہارے در پہ سر رکھنا
چلا جاتا ہوں عادت ہے کبھی حساس دنیا میں
پھر اس دنیا میں تیرے نام کا ہی ایک گھر رکھنا
تمہاری راہ میں بیٹھے فقیروں کی ادا اچھی
خبر رکھنا، نظر رکھنا، نظر میں خوف و ڈر رکھنا
سنبھل کر اب قدم رکھ لو کہ آگے ان کی دنیا ہے
قدم پھر اُن کی دنیا میں ادھر رکھنا اُدھر رکھنا
کسی کا عشق ظاہر کر رہی ہے روشنی ساری
کسی محبوب کی آمد ہے یہ شمس و قمر رکھنا
علی ؔان کی نگاہوں میں شراب ناب دیکھی ہے
شراب ایسی کہ رندوں پر قیامت تک اثر رکھنا
(محمد علی ۔ نوشہرہ،وادیَ سون)

 غزل
اب حقیقت پہ انحصار نہیں 
جھوٹ کہتا ہوں تجھ سے پیار نہیں 
اپنے لکھے کا ذمہ دار ہوں میں 
تیرے سمجھے کا ذمہ دار نہیں 
مکتبِ عشق داخلہ تو ہے
پر کوئی صورت فرار نہیں 
میں ترے جسم کا کروں بھی کیا 
جب  وفا چاہیے ہے کار نہیں 
تیرے دن کا حساب پورا ہے 
میری راتوں کا کچھ شمار نہیں
(شائق سعیدی ۔رحیم یار خان)

غزل
شہر میں ہر طرف شامِ آوارگی، نوجوانوں کو پاگل بناتی رہی 
جیسے ٹوٹی سڑک، راستے میں کھڑے آدمی کو زمیں میں دھنساتی رہی
جانے کیا وجہ تھی، جانے کیسا تھا ڈر، اپنے احساس کا خود گلہ گھونٹ کر
ایک لڑکی طلب کی سیہ رات میں خواہشوں کے دیے کو بجھاتی رہی
اُس نگاہِ طلسمی کے سائے تلے دھوپ کے اس سفر کا پتا نہ چلا
اُس نے صحرا میں بھی مجھ کو زندہ رکھا، تیز کرنوں سے مجھ کو بچاتی رہی
تم نے مجھ سے کہا تھا کہ آؤ گے تم چاندنی رات میں جب کھلیں گے کنول
پھول کھلنے لگے، دن گزرنے لگے، تب سے اب تک میں گھر کو سجاتی رہی
شب کا آنچل نگاہوں سے اوجھل ہوا روشنی میرے کاندھے پہ آکے گری
تم چلے بھی گئے، کوئی آ بھی گیا،مصلحت اپنا رستہ بناتی رہی
ریشمی آسماں پر گھرے بادلو! بستیوں میں نہیں جا کے برسا کرو
یہ تمہارا چلن، یہ تمہاری انا، دیکھو کتنے گھروں کو ڈباتی رہی
خوشبوئیں بو کے گھر میں، جہاں میں گئی، مجھ کو ہر موڑ پر پھر ملی وہ مہک
وقت پھر کھینچ کر مجھ کو لایا وہیں، زندگی اپنی چکّی چلاتی رہی
(عمود ابرار احمد۔ کراچی)

غزل
دانہ ملتا ہے جہاں آ کے وہاں بیٹھتے ہیں
اب کبوتر کسی مرقد پہ کہاں بیٹھتے ہیں
کچھ مساکن ہیں جہاں اردو زباں رہتی ہے
کچھ محافل ہیں جہاں اہل ِزباں بیٹھتے ہیں
گھومتے رہتے ہیں افلاک کے محور میں یونہی
تھک بھی جائیں تو یہ درویش کہاں بیٹھتے ہیں
بارشوں میں بھی فقط ان کا زیاں ہوتا ہے
زلزلے میں بھی غریبوں کے مکاں بیٹھتے ہیں
تیری محفل میں چلے آتے ہیں لیکن صاحب
لے کے آنکھوں میں چراغوں کا دھواں بیٹھتے ہیں
خامشی اتنی ہے فیضیؔ کہ سسکتے دل میں 
شور کرنے پہ کہیں آہ و فغاں بیٹھتے ہیں
(سید فیض الحسن فیضی۔ پاکپتن)

غزل
بڑی دیر تک رہی گفتگو تلے آسماں کے سحاب میں
کہ قضا نماز ہوئی مری ترے عشقِ خانہ خراب میں
کبھی لب پہ ذکر وصال تھا مرے دل میں تیرا خیال تھا
 تری چشمِ ناز کی روشنی تھی مرے وجود کے خواب میں
تری راہ دیکھتے سو گئے تری یادوں میں کہیں کھو گئے 
کہ یہ پیری آئی فراق میں کہ یہ گزری عمر شباب میں  
مجھے مے پلاؤ مرے صنم رہوں ساتھ تیرے میں دم بہ دم 
جو نشہ چڑھا ترے ہونٹوں کا نہیں اترے گا شب و تاب میں
ہے بدل رہا یہ زمانہ بھی کہ عدو لگائے نشانہ ہیں
مرا شہر حمزؔہ تباہ کن ترا اب بھی سر ہے کتاب میں
(حافظ حمزہ سلمانی۔ گجرات)

غزل
اس لیے تجھ سے دور ہو گیا ہے
دشتِ جاں لا عبور ہو گیا ہے
سامنے آ گیا ہے نخلستان 
اور سمندر بھی دور ہو گیا ہے
اپنے قد پر گمان تھا جس کو
چور اس کا غرور ہو گیا ہے
بات جیسے بھی چاہوں کہتا ہوں
اب سخن پر عبور ہو گیا ہے
سنگ کو اک نگاہ دیکھتے ہی
آئنہ چور چور ہو گیا ہے
کیوں ہے شرمندگی وہ اوڑھے ہوئے
اس سے کیسا قصور ہو گیا ہے
روشِ گل کو دیکھ کر اے نورؔ
مجھ کو حاصل سرور ہو گیا ہے
(سید محمد نورالحسن نور۔ممبئی ،انڈیا)

غزل
مشورہ اک مخلصانہ چاہیے 
کیا کسی کو عشق کرنا چاہیے؟
ہم تو ہیں ان کے لئے آساں ہدف 
بس انہیں تو اک بہانہ چاہیے 
آج نظروں کو نظر آیا نہیں 
دل مرے تجھ کو تڑپنا چاہیے 
جنگ ممکن ہے کہ ممکن ہی نہ ہو 
دشمنوں کو آزمانا چاہیے 
ہم کو ہے درکار اک ہی شخص وہ 
کس کو کب شفقت ؔزمانہ چاہیے
(شفقت عباس سیچ۔جھنگ صدر)

غزل
ساون بادل برسے کون
بارش بارش بھیگے کون؟
من کے اندر گونجے شور
سنّاٹے میں گرجے کون
کتنے سمٹے خود میں آدھ
کرچی کرچی بکھرے کون
خود ہی جلنا ہے اے زیست
تیری خاطر سلگے کون
مے خاروں نے توڑے جام
گردشِ نَے ہے چھلکے کون
تجھ جیسا ہو کامل دوست
باقی یاری دیکھے کون
دلبر مکھڑا دکھلا جاؤ
چلّے شلّے کاٹے کون
عبدلؔ خود ہی کرلے یار
نیت صیقل کردے کون
( عبدالحمید مغل۔ خوشاب)
 

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

Load Next Story