سیاسی غلطیاں اور جمہور کا گلا
m_saeedarain@hotmail.com
بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی اور پختونخوا ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ حکمرانوں کی سیاسی غلطیوں سے ملک میں جمہور کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ حکمران اپنی غلط سیاست سے جمہور کا گلا گھونٹ کر حق کی آواز کو دبانے کی حد تک چلے گئے ہیں کہ اب ملک میں بات کرنے پر بھی پابندی ہے۔
محمود خان اچکزئی ماضی میں میاں نواز شریف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قریب اور بانی پی ٹی آئی دور میں بانی پی ٹی آئی کے سخت ناقد تھے اور 2013 میں نواز شریف حکومت میں ان کے بھائی گورنر بلوچستان تھے اور ان کے خاندان کے کئی افراد بلوچستان حکومت کا حصہ رہے ہیں اور اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں۔، اس وجہ سے ان پر بانی پی ٹی آئی تنقید کرتے تھے کہ محمود خان کی یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ان کے ہی خاندان کے لوگ حکومتی عہدوںپر ہیں جب کہ اپنی پارٹی کے کسی اور لیڈر کو پارٹی کی سربراہی کے قابل نہیں سمجھتے۔جیسے اے این پی میں باچاخان کی اولاد کے سوا کوئی پارٹی سربراہ نہیں بن سکتا ہے۔
محمود خان اچکزئی آج جن حکمرانوں کو دھاندلی زدہ اور غیرجمہوری قرار دے رہے ہیں، وہ ماضی میں محمود خان کے اتحادی رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی ان کا جلسوں میں مذاق اڑایا کرتے تھے مگر 2024 کے الیکشن نے انھیں موجودہ حکمرانوں سے دور اور بانی پی ٹی آئی کے اتنے قریب کر دیا ہے کہ وہ اپنے سابق سیاسی حلیفوں پر کڑی سے کڑی تنقید اور الزامات لگا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ بانی پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کا کوئی ایسا رہنما نظر نہیں جو اپوزیشن لیڈر بن سکتا۔ بانی پی ٹی آئی کی جمہوریت یہ ہے کہ اپنی پارٹی میں اکلوتی نشست رکھنے والے پر وہ حد سے زیادہ مہربان ہو گئے اور محمود خان نے بھی بانی کی آفر قبول کر لی اور یہ نہیں کہا کہ اپوزیشن لیڈر بننا ان کا حق نہیں، یہ عہدہ پی ٹی آئی کے کسی سینئر رہنما کا حق ہے اور جمہوریت کا بھی تقاضا ہے کہ سب سے بڑی پارٹی اپنے ہی کسی رہنما کو نامزد کرے۔
محمود خان جن حکمرانوں پر جمہور کا گلا گھونٹنے کا الزام لگا رہے ہیں، انھوں نے جمہور کا احترام کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کی قیادت میں پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے وفد تشکیل دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کرے مگر مذاکرات کے پہلے دور کے بعد بانی نے پارٹی کو مزید مذاکرات سے منع کر دیا تھا جس کے بعد پھر پی ٹی آئی مذاکرات کی میز پر نہیں آئی، کیونکہ بانی نے کہہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی موجودہ حکمرانوں سے نہیں صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرے گی۔
تحریک تحفظ آئین کے دعویدار ریاستی اداروں پر تنقید کرتے ہیں مگر انھوں نے بانی کو مشورہ نہیں دیا کہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی ضد نہ کریں کیونکہ جمہور کا تقاضا یہ نہیں، سیاسی حکومت سے مذاکرات ہونا چاہیے ۔ ملک میں سیاسی حکومت ہے اور بانی کو مذاکرات حکومت سے ہی کرنے چاہئیں۔
موجودہ اپوزیشن جس حکومت کو تسلیم نہیں کرتی، اسی حکومت نے جب ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا تھا تو اس وقت حکومت کا یہ فیصلہ اپوزیشن کو مسترد کر دینا چاہیے تھا کہ یہ اس حکومت کا اختیار ہے ہی نہیں۔ پی ٹی آئی کی جمہوریت پرستی تو یہ ہے کہ نواز شریف حکومت میں اس کے ارکان پارلیمنٹ مستعفی ہو کر غیر حاضر رہے تھے اور انھوں نے غیر حاضری کی ساری مراعات وصول کی تھیں اور اب بانی کی ہدایت پر پی ٹی آئی کے ارکان نے اسمبلیوں کی قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی چھوڑ رکھی ہے مگر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ضرور موجود ہیں۔
ماضی میں کہا جاتا رہا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت کرتی ہے جو جمہوریت کے خلاف ہے مگر اب نہ جانے بانی کس جمہوریت کے تحت صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے کی ضد کیے بیٹھے ہیں مگر پی ٹی آئی کے جمہوریت پسند اتحادی خاموش ہیں۔ بانی کی ضد پر اعتراض تک نہیں کیا جا رہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی ضد نہ کریں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی مذاکرات جمہوریت نہیں ہے۔ محمود خان موجودہ حکومت میں جیسے متنازع بیانات دے رہے ہیں اس پر بھی موجودہ حکومت خاموش ہے۔
موجودہ حکمران اگر جمہور کا گلا گھونٹ اور حق کی آواز دبانے کی حد تک چلے گئے ہیں تو حکومت پر کھلے عام سخت تنقید اور سوشل میڈیا پر حکمرانوں کے خلاف جعلی وڈیوز کیسے اپ لوڈ ہو رہی ہیں اور حکومت انھیں روکنے میں بھی ناکام اور بے بس ہے اور جو کچھ جمہوریت اور اظہار رائے کے نام پر آج ہو رہا ہے کبھی ماضی میں ایسا ہوا؟ حکومت کے مخالفین اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق جیسی زبان استعمال کر رہے ہیں ایسی زبان کبھی نہیں سنی گئی۔
غلط سیاسی فیصلوں سے پی ٹی آئی کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے اور بانی کی رہائی کے امکانات ختم ہوتے جا رہے ہیں جن سے بانی کو اجتناب کی اشد ضرورت ہے۔