ایک حقیقت سو افسانے (دوسراحصہ)

افغان دشمن سے ایک ساتھ غول بنا کر لڑتے ہیں مگر دشمن سے فارغ ہو کر افغان قبائل آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں


[email protected]

یونیورسٹی آف نبراسکا والے افسانے میں ایک اور بات کہی گئی ہے کہ ’’افغان معاشرے میں عورت کا احترام نہیں‘‘۔ میں پاکستان کے تمام شہر اور چھوٹے چھوٹے دیہات کے علاوہ کئی ممالک گھوم چکا ہوں، میں چونکہ افغان سے مراد پختون لیتا ہوں، لہٰذا اس حوالے سے میں حلفاً کہتا ہوں کہ جو احترام ہمارے صوبے کے پختون معاشرے میں عورت کا ہر روپ میں ہے، وہ شاید ہی کسی دوسرے معاشرے میں ہو، ہاںچند گنے چنے لبرلزکی استثنیٰ ضرور ہے لیکن من حیث القوم ہم اپنی روایات، اقدار اور اسلامی تعلیمات کے مطابق پردے کو رب العزت کی طرف سے نافذ کردہ فرض سمجھتے ہیں اوراپنی باپردہ ماؤں بہنوں اور بیٹیوں پر فخر کرتے ہیں۔ ہماری پردہ کرنے والی ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو بھی اپنے پردے پر فخر اور ناز ہوتا ہے ۔ اگر کوئی اس پر بھی معترض ہے تو ان کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی ان پر رحم فرمائے، آمین۔

افسانے میں لکھا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں پختونوں کو خرکار‘ اغواء کار اور لٹیرے لکھا جاتا ہے، اس پر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ رنجیت سنگھ سے محبت کرنے والوں کی باقیات اس سے بد تر القابات سے نوازیں تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر حیران ہوں کہ پنجاب کے چند لوگ کیوں پورے پنجاب کو پختون دشمن ثابت کرنے کی منفی مہم چلا رہے ہیں؟ نفرت پیدا کرنے والی گفتگو چاہے نجی محافل میں ہو، تقریر یا تحریر میں ہو، یہ کھلی ملک دشمنی ہے۔ عقل اور حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ نفرتوں کے اس بیوپار سے اجتناب کرنا چاہیے۔ نبراسکا افسانے کے مطابق افغانوں کے ڈی این اے میں ڈسپلن، قانون کی پابندی، رواداری اور انسانی حقوق پیدا نہیں ہوئے۔

یہ انسانی جان‘ وعدے کی پابندی اور احسان مندی کو اہمیت نہیں دیتے۔ یہ سب برائی تو ایک طرف مگر حیرت زدہ ہوں کہ ’’نبراسکا محقق‘‘ کو افغانوں کا قبائل میں منقسم رہنا بھی برائی لگتا ہے۔ افسانے میں مذکورہ ایک اور برائی یہ ہے کہ افغان دشمن سے ایک ساتھ غول بنا کر لڑتے ہیں مگر دشمن سے فارغ ہو کر افغان قبائل آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ ارے بھائی افغان اور پختون بھی انسان ہیں، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان کے قبیلوں، قوموں اور برادریوں کی طرح، ان کے بھی آپس میں اختلافات اور تنازعات ہوتے ہیں۔ مگر شکر الحمدللہ ہمارا جرگہ سسٹم موجود ہے، بڑے بڑے تنازعات کے حل ہمارے اس جرگہ سسٹم سے نکال لیے جاتے ہیں۔

یہی جرگہ یا پنچایت سسٹم ریاست نے مستعار لے کر ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر ڈی آر سی کمیٹیوں کا جال بچھایا ہے؟ جو روزانہ سیکڑوں تنازعات کے فیصلے کرتے ہیں۔ اگر یہ بھی برائی ہے تو یہ بہت اچھی برائی ہے، سب کو اپنانا چاہیے۔ نبراسکا افسانے میں افغانستان کے ازبک کمانڈر رشید دوستم کے ہاتھوں مجاہدین افغانستان (طالبان) کو کنٹینروں میں بند کرکے بھوک و پیاس اور دم گھٹنے سے مارنے اور دشت لیلیٰ میں سر کاٹ کر جلانے جیسی بربریت کا ذکر کیا گیا ہے حالانکہ اس میں مارے جانے والوں کی اکثریت کا تعلق افغانستان کے پختون قبائل سے تعلق رکھنے والے مجاہدین سے تھا، افسوس کہ مقتول کو قاتل اور مظلوم کو ظالم بنا کر تاریخ مسخ کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔

افسانے میں پختون قوم کی برائیاں گن گن کر تسلی نہیں ہوئی تو ان کو اپنے آپ پر غصہ آیا اور فرما گئے کہ اگر "یہ لوگ (پختون- افغان) اتنے ہی جاہل‘ سنگ دل‘ مطلبی اور احسان فراموش ہیں تو پھر ہم انھیں دہائیوں تک آئیڈیل کیوں سمجھتے رہے اور ہم نے اپنے میزائلوں کے نام غوری‘ غزنوی‘ بابر اور ابدالی کیوں رکھے؟" اپنے سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہندو فطرتاً بزدل ہیں‘ مسلمان بہادر اور جنگجو ہیں اور ان کی اکثریت سنٹرل ایشیا اور افعانستان سے آئی تھی شکر الحمدللہ انھوں نے غوری‘ غزنوی اور ابدالی کو جنگجو اور بہادر مانا اور یہ اقرار کیا کہ ہندوستان کے کفار و مشرکین آج بھی ان کے ناموں اور تذکروں سے ڈرتے ہیں مگر وہ پھر بھی ان ہیروز کے ناموں سے میزائلوں کو منسوب کرنے پر سوالیہ نشان لگا کر ریاست کا جرم سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ انھوں نے یہ جرم بھی پختون کے گلے ڈال دیا وہ فرماتے ہیں، کہ چونکہ اکثر ایٹمی سائنسدانوں کے آباؤاجداد ان حملہ آوروں کے ساتھ برصغیر آئے تھے اور ان کا پس منظر بھی پختون معاشرے سے جڑا تھا اس لیے انھوں نے یہ نام رکھے۔

یعنی انھوں نے ایٹمی سائنسدانوں کے آباؤاجداد کو بھی چوروں اور لٹیروں کی صف میں کھڑا کردیا، میرے خیال میں ان کا اشارہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان رحمہ اللہ کی طرف ہے۔ مگر ہمیں فخر ہے کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والا ایٹم بم اور بے مثل و لاجواب میزائلز بنانے والے عبدالقدیر خان بھی غیور پختون تھے۔ ہمیں اس پر فخر ہے کہ انھوں نے مسلمانان برصغیر پاک و ہند کے لیے خدمات و فتوحات کے اعتراف میں اپنے بنائے گئے میزائلوں کو ابدالی، غوری اور غزالی جیسے مجاہدوں اور بہادروں کے ناموں سے منسوب کیا جو کفار و مشرکین کو پھینٹا لگانے کی مستند تاریخ رکھتے ہیں اور کفار آج بھی ان کے تذکروں سے وحشت زدہ ہوتے ہیں۔

ہم صاحب مضمون سے پختون قوم کے لیے کلمہ خیر کی توقع تو نہیں رکھتے مگر اتنا ضرور کہیں گے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان رحمہ اللہ اور دوسرے پختون ایٹمی سائنسدانوں کو اپنی پرانی نظر سے دیکھ لیتے یا ان کے خدمات کے صدقے ان کو معاف کردیتے تو بہتر ہوتا، مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ من حیث القوم ہم مسرور ہیں کہ انشاء اللہ عبدالقدیرخان رحمہ اللہ کی سرپرستی اور دوسرے سائنسدانوں کی کوششوں سے بنائے گئے ایٹم بم اور ابدالی، غوری اور غزنوی میزائل اسلام کے نشاۃ ثانیہ، قیامت سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کے آنے اور دجال کو جہنم رسید کرنے کے بعد خلافت منہاج نبوی کے قیام کے لیے پاکستانی افواج کے ذریعے استعمال ہوں گے کیونکہ خاتم النّبیینﷺ کی احادیث مبارکہ کے مطابق انشاء اللہ امام مہدی کی مدد کے لیے لشکر خراسان سے نکلے گا اور پاکستان میں پختونوں کا صوبہ پختونخوا خراسان کے مرکز میں واقع ہے۔

یہ میرے اللہ کی شان اور پختونوں کے جدامجد قیس عبدالرشید کو نبی رحمت العالمین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ جس طرح ہمارے آباؤاجداد نے برصغیر پاک و ہند کے چپے چپے میں کفار و مشرکین کو پھینٹا لگایا تھا، انشاء اللہ ہماری آیندہ نسلیں اپنے آباؤاجداد کی سنت پر عمل کرتے ہوئے امام مہدی اور عیسیٰ علیہ السلام کی معیت میں دجال اور ان کے لشکریوں کا پھینٹا لگائیں گے۔     (جاری ہے)

مقبول خبریں