جسٹس طارق کی ڈگری تنازع کیس؛ ایچ ای سی رپورٹ و جامعہ کراچی کے جواب میں اہم انکشافات

کراچی یونیورسٹی کے جواب میں جسٹس جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کی وجوہات کا ذکر بھی موجود

فوٹو: فائل

اسلام آباد:

جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری تنازع کیس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروا دی گئی، کراچی یونیورسٹی کا جواب بھی رپورٹ کا حصہ ہے۔

ایچ ای سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا یونیورسٹی کے انتظامی معاملات میں کوئی کردار نہیں، موجودہ رِٹ پٹیشن مکمل طور پر یونیورسٹی کا داخلی معاملہ ہے اور یونیورسٹی کی اپنی اتھارٹیز ڈگری جاری کرنے کی ذمہ دار ہیں، اس حوالے سے ایچ ای کا کوئی کردار نہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جسٹس طارق جہانگیری کی ڈگری کبھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سامنے تصدیق کے لیے پیش ہی نہیں کی گئی اور ڈگری کی تصدیق سے متعلق نہ ہی کوئی درخواست زیر التوا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نہ تو ڈگری جاری کرتا ہے اور نہ ہی انہیں منظور کرتا ہے۔

ایچ ای سی کسی ایسی ڈگری کی تصدیق نہیں کر سکتا جو متعلقہ یونیورسٹی یا اعلیٰ تعلیمی ادارے کے تحت تسلیم شدہ نہ ہو، ہائر ایجوکیشن کمیشن کا اس معاملے کے حقائق یا حالات سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔

جامعہ کراچی کا جواب

کراچی یونیورسٹی کے جواب میں جسٹس جہانگیری کی ڈگری منسوخ کرنے کی وجوہات کا بھی ذکر موجود ہے۔ 

جامعہ کراچی نے جواب میں موقف اپنایا ہے کہ سال 1989 میں طارق محمود پر اَن فیئر مینز کمیٹی نے 3 سال کی پابندی لگائی، کمیٹی نے نقل کرنے اور ایگزامنر کو دھمکیاں دینے کا الزام ثابت ہونے پر 3 سالہ پابندی لگائی تھی۔

یونیورسٹی کے 1989 کے فیصلے کے تحت طارق محمود 1992 میں دوبارہ امتحان دینے کے لیے اہل تھے، پابندی کے خلاف طالبعلم طارق محمود نے ڈگری حاصل کرنے کے لیے 1990 کا جعلی انرولمنٹ فارم استعمال کیا، جس پر طالبعلم طارق محمود نے گورنمنٹ اسلامیہ کالج کی جعلی مہر استعمال کی۔

کراچی یونیورسٹی نے جواب میں بتایا کہ طارق محمود کی ڈگری پر انرولمنٹ نمبر 5968/87 امتیاز احمد نامی طالبعلم کو الاٹ ہوا ہوا ہے، طارق محمود نے 1990 میں ایل ایل پارٹ 2 کے لیے بھی 7184/87 انرولمنٹ نمبر جعلسازی سے حاصل کیا۔ نام اور انرولمنٹ نمبر بدل بدل کر مارک شیٹس اور ڈگری حاصل کی گئیں۔

جواب میں مزید کہا گیا کہ شہری عرفان مظہر نے 23 مئی 2024 کو طارق محمود کی ڈگری کی تصدیق کی درخواست دی، شہری کی درخواست کے ردعمل میں یونیورسٹی نے دوبارہ دونوں انرولمنٹ نمبروں کی جانچ پڑتال کی۔ کنٹرولر ایگزامنیشن نے دوہرے انرولمنٹ نمبرز کو ناممکن قرار دیتے ہوئے ڈگری اور مارک شیٹس کو غلط قرار دیا۔

کراچی یونیورسٹی کے جواب میں بتایا گیا ککہ رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ نے 5 جولائی 2024 کو بذریعہ ای میل کنٹرولر ایگزامیشن کے لیٹر کی تصدیق مانگی، رجسٹرار ہائیکورٹ کی ای میل کے جواب میں یونیورسٹی نے ڈگری کو غلط قرار دینے کے مراسلے کی تصدیق کی۔ پرنسپل اسلامیہ کالج نے تصدیق کی کہ طارق محمود 1984 سے 1991 تک کبھی کالج میں طالب علم ہی نہیں رہے۔

Load Next Story