جانی دشمن سمجھی جانے والی ڈولفن اور کلر وہیل سے متعلق دلچسپ اور حیران کن سائنسی تحقیق
سائسن دانوں نے ایک حیران کن مگر خوشگوار تحقیق میں ثابت کردیا کہ ایک دوسری کی روایتی دشمن اور جان لیوا حریف سمجھے جانے والی ڈولفن اور کلر وہیل درحقیقت آپس میں گہری دوست ہیں۔
نیچر پبلشنگ گروپ کے عالمی شہرت یافتہ مؤقر سائنسی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہونے والی تحقیق نے سوچ و فکر کے نئے زاویے واں کردیئے۔
تحقیق کاروں نے اس ریسرچ کے لیے کینیڈا کے ساحل کا انتخاب کیا تھا جہاں ایک حیرت انگیز قدرتی منظر نے سائنس دانوں کی توجہ حاصل کر لی تھی۔
یہ منظر ڈولفنز کو اپنے روایتی دشمن سمجھے جانے والے اورکاز (کِلر وہیلز) کے ساتھ مل کر شکار کرتے دیکھنا تھا، جو واقعی کسی انکشاف سے کم نہ تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب ان دونوں سمندری ممالیہ جانوروں کے درمیان اس نوعیت کا باقاعدہ تعاون ریکارڈ کیا گیا ہے۔
تحقیق کے مطابق برٹش کولمبیا کے ساحل پر پائی جانے والی سفید دھاری والی پیسیفک ڈولفن کو مقامی کلر وہیل کے ساتھ مل کر سالمن مچھلی کا شکار کرتے دیکھا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ دنیا کے کئی علاقوں میں اورکاز ڈولفنز کا شکار کرتے ہیں مگر یہاں اورکاز صرف مچھلی اور وہ بھی خاص طور پر سالمن کھاتے ہیں۔
اس تحقیق کی سربراہی ڈاکٹر سارہ فارچون نے کی جو ڈلہوزی یونیورسٹی کینیڈا میں اوشنوگرافی کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
اس ریسرچ کے لیے سائنس دانوں نے ڈرون فوٹیج اور خصوصی کیمروں کی مدد سے یہ مناظر ریکارڈ کیے۔ یہ کیمرے سکشن ٹیگز کے ذریعے اورکاز کے جسم پر لگائے گئے تھے جن میں آواز سننے کے آلات (ہائیڈروفونز) بھی شامل تھے۔
ریکارڈنگ میں دیکھا گیا کہ کلر وہیل سطحِ آب پر ڈولفن کا پیچھا کرتے ہیں اور پھر دونوں ایک ساتھ 60 میٹر (تقریباً 197 فٹ) گہرائی تک غوطہ لگاتے ہیں۔
اسی گہرائی میں کلر وہیل ڈولفن کا شکار کرنے کے اپنے فطری لگاؤ کے برعکس سالمن نامی مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔
کم روشنی کے باوجود کیمروں نے شکار کے مناظر ریکارڈ کیے جبکہ ہائیڈروفونز نے مچھلی کے پکڑے جانے کی آوازیں بھی محفوظ کیں۔
اس ریسرچ سے محققین نے جانا کہ کلر وہیل دراصل ڈولفنز کو اسکاؤٹس کے طور پر استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ چونکہ دونوں جانور ایکو لوکیشن استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے ڈولفن کے ساتھ شکار کرنے سے کلر وہیل کو مچھلیوں کا سراغ لگانے میں مدد ملتی ہے اور توانائی بھی بچتی ہے۔
اب ذہن میں سوال اُٹھتا ہے کہ جانی دشمن کلر وہیل کے ساتھ اتنی شفقت اور مشقت سے آخر ڈولفن کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے تو مشترکہ ویڈیوز سے پتا چلا کہ شکار کے بعد ڈولفن ان بچے ہوئے ٹکڑوں کو کھا لیتے ہیں جو کلر وہیل کے منہ سے چھوٹ جاتے ہیں۔
سالمن مچھلی کیوں کہ ڈولفن کی بنیادی خوراک نہیں ہے اس لیے ریسرچر کا ماننا ہے کہ ڈولفن دراصل اس کے ذریعے کلر وہیل سے تحفظ حاصل کرتی ہیں۔ یعنی سالمن مچھلی کا ذائقہ منہ کو لگا کر کلر وہیل سے اپنی جان بچالی۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس علاقے میں ایک اور قسم کی کلر وہیل بھی پائی جاتی ہے جسے Bigg’s (Transient) killer whales کہا جاتا ہے اور جو ڈولفن کا شکار بڑے ذوق و شوق سے کرتی ہیں۔
ان بڑے اور بے رحم شکاریوں سے ڈولفن کو بچانے کے لیے پھر وہی کلر وہیل آتی ہیں جنھیں ڈولفن سالمن مچھلی کا ڈنر کرواتی رہتی ہیں اس طرح ان کلر وہیل کو کھانا، تو ڈولفن کو اپنی جان بخشی کا پروانہ مل جاتا ہے۔
اس سے قبل کچھ ماہرین کا خیال تھا کہ ڈولفن ہی ان ملاقاتوں کا آغاز کرتی ہیں اور اصل فائدہ بھی انہی کو ہوتا ہے جبکہ اورکاز (کلر وہیل) انھیں محض برداشت کرتے ہیں۔
تاہم نئی تحقیق نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے، کیونکہ شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈولفن اور کلر وہیل یکساں سرگرمی کے ساتھ شکار میں حصہ لیتے ہیں اور دونوں میں ایک دوسرے کے ساتھ کسی دشمنی یا بچاؤ کا رویہ نہیں دیکھا گیا۔
یاد رہے کہ ماہرین کے مطابق مختلف اقسام کے جانوروں کے درمیان تعاون فطرت میں موجود تو ہے مگر دو شکاری ممالیہ جانوروں کا اس طرح مل کر شکار کرنا انتہائی نایاب ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس تحقیق کو سمندری حیات کے بارے میں ہماری سمجھ میں ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔