عثمان ہادی کو قاتلانہ حملے سے قبل بھارتی نمبروں سے دھمکیاں موصول ہونے کا انکشاف
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں سیاسی کارکن عثمان ہادی کی موت کے بعد حالات کشیدہ ہو گئے ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں شدید احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق عثمان ہادی حالیہ دنوں ڈھاکا میں ہونے والے ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔
عثمان ہادی کے اہلِ خانہ اور قریبی ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں قتل سے قبل بھارت سے تعلق رکھنے والے فون نمبرز سے دھمکیاں موصول ہو رہی تھیں۔
عثمان ہادی کی موت کے بعد ڈھاکا کے مختلف علاقوں میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے سابق بنگلہ دیشی رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کی رہائش گاہ کو آگ لگا دی۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز نے حالات پر قابو پانے کی کوشش کی تاہم کئی مقامات پر کشیدگی برقرار رہی۔
بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے واقعے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ عثمان ہادی پر حملے میں ملوث افراد کو بنگلہ دیش کے حوالے کیا جائے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر بیرونی مداخلت ثابت ہوئی تو اس کے سنگین سفارتی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
ادھر بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈھاکا میں جاری احتجاج کے باعث بھارتی سفارت خانے کا ویزا سینٹر تاحال بند ہے، جبکہ سفارتی تنصیبات کے باہر سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔