کیا بھارت ایک سیکولر اسٹیٹ ہے؟

بی جے پی اسی انگریزوں کی قائم کردہ آر ایس ایس کے بطن سے پیدا ہوئی ہے

نئی بابری مسجدکی تعمیرکے لیے مرشد آباد میں سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے، یہ تقریب گزشتہ 6 دسمبرکو ٹھیک اس دن منعقد کی گئی جس دن ایودھیا میں پانچ سو سال پرانی بابری مسجد کو آر ایس ایس اور بی جے پی کے دہشت گردوں نے شہید کردیا تھا۔

اس تاریخی مسجد کو ظہیر الدین محمد بابر کے دور میں اس کے ایک سالار میر باقی نے 1527 میں تعمیرکرایا تھا۔ انتہا پسندوں کا یہ دعویٰ تھا کہ بابری مسجد کی جگہ پہلے ایک مندر موجود تھا، جسے توڑکر مسجد تعمیرکی گئی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہا پسند ہندوؤں کا دعویٰ بالکل غلط تھا جسے پہلے عدالت نے غلط قرار دے دیا تھا مگر انتہا پسند ہندو اس فیصلے کو نہ مانے اور اپنے سیاسی مقاصد کے تحت مسجد کو مسمار کرنے کے لیے سرگرم رہے۔

جب 2014 میں مسلم دشمن بی جے پی کی حکومت قائم ہوگئی تو نریندر مودی اپنی سیاست چمکانے کے لیے یہ کیس سپریم کورٹ تک لے گیا، جہاں بھارتی عدالت نے مسجد کی جگہ مندر بنانے کی اجازت دے دی مگر ساتھ ہی پانچ ایکڑ زمین ایودھیا میں ہی مسجد کی تعمیر کے لیے مختص کرنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس کا فیصلہ غلط تھا، بعد میں انکشاف ہوا کہ اس فیصلے کے عوض مودی نے انھیں نوازنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب قدیم مسجد کو شہید ہوئے 30 برس کا عرصہ ہو چکا ہے۔

مسجد کی جگہ ایک شان دار مندر تو تعمیر ہو چکا ہے جس کا 5 اگست 2020 کو مودی نے بڑے فخر سے افتتاح کیا تھا مگر مسجد ابھی تک تعمیر نہیں ہوئی ہے۔

مسجد بنے بھی کیسے؟ اس لیے کہ بی جے پی کی انتہا پسند حکومت جو مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے وہ بھلا مسجد کی تعمیر کو کیسے برداشت کر سکتی ہے۔

بہرحال اب مایوس مسلمانوں نے مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد میں ایک شاندار مسجد تعمیر کرنے کے لیے اس کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔

اس مسجد کو بابری مسجد کا نام دیا گیا ہے اس کا سنگ بنیاد ٹھیک 6 دسمبر کو مغربی بنگال اسمبلی کے ایک سابق رکن ہمایوں کبیر نے رکھ دیا ہے جن کا ممتا بینرجی کی پارٹی ترنومول کانگریس سے تعلق ہے۔ مسجد کے لیے زمین بھی انھوں نے خود فراہم کی ہے۔

اس موقع پر ہزاروں مسلمان موجود تھے جو مسجد کی تعمیر میں ابھی سے جوش و خروش سے منہمک ہوگئے ہیں۔ مسجد کی تعمیر کے لیے اینٹیں، بجری اور سیمنٹ مہیا کر دیا گیا ہے۔

اس مسجد کی تعمیر کے لیے ایک صاحب ثروت مسلمان نے 5 کروڑ روپے عطیہ کیے ہیں مگر انھوں نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کے لیے کہا ہے۔

مرشد آباد میں تعمیر ہونے والی مسجد کو بابری مسجد کا نام دیا جانا بڑی معنی خیزی رکھتا ہے۔ یہ اصل بابری مسجد کی نعم البدل تو نہیں ہے مگر یہ نہ صرف اصل بابری مسجد کی یاد تازہ کرنے بلکہ نریندر مودی کی حکومت کو یہ یاددہانی کرانے کے لیے تعمیر کی جا رہی ہے کہ اس نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں رام مندر بنانے کے ساتھ ہی بابری مسجد کو ایودھیا میں ہی کچھ فاصلے پر تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا مگر افسوس کہ یوپی حکومت نے مسجد کی تعمیر کے لیے ایودھیا میں جگہ نہیں دی۔

بلکہ ایودھیا سے 25 کلو میٹر دور دھنی پور نامی قصبے میں مسجد کی تعمیر کے لیے جگہ الاٹ کی جہاں پہلے ہی دو مساجد موجود ہیں، اس طرح تیسری مسجد کی وہاں ضرورت نہیں ہے مگر ایودھیا میں ایک بڑی مسجد کی ازحد ضرورت ہے، چنانچہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق بابری مسجد وہیں تعمیر ہونی چاہیے۔

واضح ہو کہ صدیوں پرانی بابری مسجد کو منہدم کرنا انتہا پسند ہندوؤں کا مسلمانوں کے خلاف ایک سخت وار تھا۔ مودی حکومت سے پہلے جیولوجیکل سروے آف انڈیا نے بھی مسجد کے نیچے کسی مندر کے آثار کے ہونے کی تصدیق نہیں کی تھی۔

ان کا استدلال تھا کہ مسجد کی جگہ اگر واقعی رام جنم بھومی ہے تو وہاں مسجد کے نیچے ایک قلعے کے آثار ہونے چاہئیں کیونکہ رام ایک راجہ کے بیٹے تھے تو ان کا جنم ایک محل میں ہی ہوا ہوگا جب ہی تو یہ جگہ رام جنم بھومی کے نام سے موسوم کی جا رہی تھی۔

یہ معاملہ دراصل انگریزوں نے پیدا کیا تھا، وہ برصغیر پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانے کے لیے ہندو اور مسلمانوں کو باہمی مسئلوں میں الجھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے تھے تاکہ ان کا اقتدار طویل سے طویل تر ہوتا رہے اور وہ برصغیر کی دولت کو خوب لوٹ کر اپنے وطن منتقل کرتے رہیں۔

آج برطانیہ سمیت تمام یورپی ممالک کی خوشحالی ان کے اپنے مقبوضہ ممالک سے لوٹی ہوئی دولت کی ہی مرہون منت ہے۔ برصغیر میں انگریز تقریباً ڈیڑھ سو سال تک قابض رہے مگر ان کی حکومت کے خلاف مقامی لوگوں نے کئی بغاوتیں کیں جن میں ہزاروں انگریز مارے گئے۔ 

اس سلسلے کی سب سے بڑی بغاوت 1857 کی بغاوت تھی جسے برصغیر کے ہندو اور مسلمان آزادی کی جنگ سے تعبیر کرتے ہیں۔ انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کو انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں نفرت پیدا کرنے کے لیے قائم کرایا تھا اور یہ ان کا داؤ اتنا کارگر ثابت ہوا کہ نوبت برصغیر کے حصے بخرے تک پہنچ گئی۔

بی جے پی اسی انگریزوں کی قائم کردہ آر ایس ایس کے بطن سے پیدا ہوئی ہے۔ رام مندر کے معاملے نے اس وقت زیادہ طول پکڑا تھا جب مسجد کے اندر سے ایک مورتی برآمد ہوئی جو سراسر انتہا پسند ہندوؤں کی ایک سازش تھی۔ اس کے بعد سے مسجد کے خلاف عدالتی کارروائی کو زیادہ فروغ ملا۔

پھر عدالت نے ہندوؤں کے ساتھ نرمی برتتے ہوئے انھیں مسجد میں پوجا کرنے کی اجازت دے دی۔ موقع غنیمت جان کر 1990 میں ایل کے ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی نے پورے بھارت میں رتھ یاترا کرکے ہندوؤں کو اپنے اشتعال انگیز بھاشنوں سے مسجد کو شہید کرنے کی جانب مائل کر دیا۔

اس وقت دہلی میں نرسمہا راؤ وزیر اعظم اور یوپی میں کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ تھے۔ دونوں ہی آر ایس ایس کے نظریات کے حامی تھے ان دونوں کے گٹھ جوڑ نے آر ایس ایس، بی جے پی اور وی ایچ پی کے دہشت گردوں کو مسجد شہید کرنے سے روکنے کے بجائے انھیں مسمار رکنے کی ترغیب دی۔ 

بالآخر 6 دسمبر 1992 تک بھارت کے کئی علاقوں سے انتہا پسند ہندو بڑی تعداد میں ایودھیا میں جمع ہوچکے تھے۔ انھوں نے چند گھنٹوں میں مسجد کو شہید کر ڈالا۔

اس کے بعد بھارت کے مسلمان اس جارحیت پر چپ نہ رہ سکے انھوں نے مسجد کی شہادت کے خلاف اپنے شہروں میں احتجاج شروع کر دیا مگر ہندو غنڈوں نے جو ہتھیاروں سے لیس تھے، ان پر حملے شروع کر دیے۔

یوں 6 دسمبر سے 10 دسمبر تک پورے بھارت میں مسلمانوں کا قتل کیا گیا مگر بھارتی مرکزی حکومت سے لے کر یوپی حکومت تک خاموش تماشائی بنی رہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں نے عدالت کا رخ کیا مگر انھیں کوئی فائدہ نہ ہوا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کی مرضی کے مطابق مسجد کی مسماری کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ اب مندر تو تعمیر ہو چکا ہے مگر مسجد کی تعمیر لیت و لعل میں پڑی ہوئی ہے جس پر سپریم کورٹ بالکل خاموش ہے۔

تاہم اس نے بھارت کے ایک سیکولر اسٹیٹ ہونے پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں، پھر ایک مسلم خاتون کے چہرے سے حجاب کے کھینچے جانے کے حالیہ واقعے نے تو بھارت کو ایک خطرناک ملک بنا دیا ہے۔

Load Next Story