باتیں پرانی، انداز نئے

نہرِ سوئز پر جمال ناصرکے خلاف امریکا کا بیانیہ سہروردی نے مان لیا

ہمارے اختلافات بنگالیوں کے ساتھ نہیں، بلکہ ایک سوچ اور ایک نظریے اور قوت کے ساتھ تھے، وہ قوت ایک معاشرے کے اندر سیاسی شعورکی قوت تھی جس میں بنگالی قوم پرستی کے مضبوط عناصر تھے۔ دیکھا جائے تو ان کے اندر قوم پرستی کے جذبے کا مضبوط ہونا بھی جائز تھا،کیونکہ پہلے ان سے ان کی زبان چھیننے کی کوشش کی گئی اور پھر اقتدار میں حصہ انتہائی کم کیا گیا۔

ان کی سیاست مغربی پاکستان سے مختلف تھی۔ مشرقی پاکستان میں مڈل کلاس سیاست کا غلبہ تھا جب کہ مغربی پاکستان میں چند شہر جیسا کہ لاہور،کراچی وغیرہ کے علاوہ باقی سیاست وڈیروں، سرداروں، پیروں اور چوہدریوں کے زیرِ اثر تھی، اگرکوئی وڈیرہ یا سردار ضمیر رکھتا تھا تو ٹھیک تھا، اگر نہیں توکوئی آڈٹ ووٹ دینے والا نہیں رکھتا تھا۔

مثالیں آپ کے سامنے ہیں خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ اور یہاں تک کہ 1954 میں حسین شہید سہروردی جب وزیرِ اعظم بنے تو انھوں نے بھی اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کی خارجہ پالیسی کو تسلیم کیا اور وہ کرتے بھی کیا؟ امریکا ایک طاقتور حقیقت تھی، سرد جنگ کا زمانہ تھا اورکئی زمینی حقائق تھے۔

نہرِ سوئز پر جمال ناصرکے خلاف امریکا کا بیانیہ سہروردی نے مان لیا۔ عوامی لیگ کی وہ سینٹرل کمیٹی کی میٹینگ جو حسین شہید سہروردی نے وزیر اعظم ہاؤس میں کی تھی، اس میں میرے والد قاضی فیض محمد، میر رسول بخش تالپر، نوابزادہ نصر اللہ خان اور مزید لوگ بھی اس میٹنگ میں موجود تھے۔

اس میٹنگ میں شرکت کرنے والوں کی اکثریت نے میرے والد کو نامزد کیا کہ وہ حسین شہید سہروردی سے دو ٹوک بات کریں کہ انھوں نے نہرِ سوئز پر اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر جو بات تسلیم کی ہے وہ ہمیں قبول نہیں، انھوں نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا اور اسی سال ڈھاکا میں عوامی نیشنل پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی، جس میں پارٹی کے صدر بنے باچا خان اور مولانا بھاشانی جنرل سیکریٹری مقررکیے گئے۔

اس طرح سے عوامی لیگ جس میں شیخ مجیب الرحمٰن بھی وزیر تھے، مشرقی پاکستان سے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ ایک نیا کارواں آگے چلا جو کل تک حسین شہید سہروردی کی قیادت میں عوامی لیگ لے کر چلی تھی، ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا کہ حسین شہید سہروردی کو وزیرِاعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

یہ سب اس لیے ممکن ہوا کیونکہ قومی اسمبلی عوامی ووٹ سے نہیں بلکہ صوبائی اسمبلیوں کی ممبران کے ووٹ سے بنی تھی اور یہ اسمبلی اسٹبلشمنٹ کی زیرِ ہدایت تھی، وہ جس کو چاہتے تھے اس کو ملک کا وزیرِ اعظم بنا دیا جاتا تھا۔

گورنر غلام محمد، اسکندر مرزا، جنرل ایوب سے ہدایت لیتے تھے۔ جنرل ایوب خان نے خود ہی اقتدار کی کرسی سنبھال لی۔ عزیز ہم وطنوں ! کے الفاظ سے اپنا دور شروع کیا۔ یہاں سے ابتداء ہوئی، ایک مرتبہ پھر بنگالیوں کے احتجاج کی۔

 1962 میں حسین شہید سہروردی بیروت کے ایک ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ چند ہفتے قبل ان کی بیٹی کو ایک کال موصول ہوئی، بھٹو کی طرف سے کہ وہ اپنے والد کو سمجھائیں اور جب تک ان کی بیٹی اپنے والد کو کچھ سمجھاتیں، سہروردی صاحب اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔

ان چھے برس میں شیخ مجیب، حسین شہید سہروردی کے نعم البدل بن چکے تھے۔ بنگالی لیڈران میں کوئی خان، سردار، چوہدری یا وڈیرہ نہ تھا۔ شیخ مجیب کو اس وقت حسین شہید سہروردی کے روٹھے یار یعنی میرے والد قاضی فیض محمد یاد آئے۔

میرے والد نے شیخ مجیب کے سامنے ایک شرط رکھی کہ وہ عوامی لیگ میں دوبارہ شامل ہوںگے، مگر شرط یہ ہے کہ شیخ مجیب، مغربی پاکستان میں ون یونٹ کو ختم کرنے میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور یہ شرط شیخ مجیب نے مان لی۔

میرے والد قاضی فیض محمد سندھ میں کسانوں اور دہقانوں کے لیڈر تھے۔ میاں افتخار، میجر اسحاق اور فیض احمد فیض ان کے گہرے دوست تھے، وہ ہاری کمیٹی کے کرتا دھرتا تھے، ترقی پسند تھے، سندھ میں کسانوں اور دہقانوں کے جتنے بڑے جلسے منعقد ہوتے تھے، ہاری کمیٹی اس کو آرگنائزکرتی تھی۔

نوابشاہ کے گرد و نواح میں یہ جلسے منعقد ہوتے اور ان جلسوں میں حسین سہروردی، مولانا بھاشانی، میجر اسحاق، باچا خان، مینگل صاحب، بزنجو سب شرکت کرتے تھے۔

یہ تھی مغربی پاکستان کے بائیں بازو کی قیادت اور مشرقی پاکستان کے بائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ رکھنے والی قیادت اور پھر بنگالیوں کو شیخ مجیب کی صدارت میں ایک پاپولر لیڈر مل گیا اور اس کے ساتھ تھے، چند انتہا پرست جیسا کہ تاج الدین جیسے لوگ جو ہمیشہ ٹکراؤ کی بات کرتے تھے۔

شیخ مجیب اس وقت بھی کشمیرکو ہندوستان سے واپس لینے کی بات کرتے تھے، وہ جناح کی گیارہ اگست کی تقریرکی پیروی کرتے تھے، وہ سیکولر تھے، وہ صوبائی خود مختاری پر یقین رکھتے تھے، مگر یہاں بیانیہ کچھ اور تھا۔ یہاں کی ابلاغ عامہ کا متن کچھ اور تھا۔ یہاں پر بائیں بازوکی آواز نگار خانے میں کسی طوطی کی مانند تھی۔

مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب پاپولر لیڈرکے طور پر ابھرے اور مغربی پاکستان میں ذوالفقارعلی بھٹو۔1970 کے انتخابات میں عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیتی، ذوالفقار علی بھٹوکی پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی دوسرے نمبر اور تیسرے نمبر پر تھی نیشنل عوامی پارٹی۔

23 برس میں ایسا پہلی مرتبہ ہونے جارہا تھا کہ اقتدار ڈھاکا منتقل ہو رہا تھا اور دارالخلافہ کراچی سے پنڈی منتقل ہو چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو مغربی پاکستان کے مقبول لیڈر تھے اور شیخ مجیب مشرقی پاکستان کے۔

اگرکوئی میثاقِ جمہوریت ہوتا تو کیا ہوتا مگر نہیں تھا۔ ایک لیڈر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ ایک لیڈر یہ کہہ رہے تھے کہ میں وزیرِاعظم ہوں اور اقتدار میرے حوالے کرو۔ وہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ شیخ مجیب، سوویت یونین کو پاکستان کے مفاد میں سمجھتا تھا۔ سرد جنگ میں اگر شیخ مجیب کو اقتدار دیا جاتا توکیا ہوتا۔

جب جنرل ایوب کا تضاد فاطمہ جناح کے ساتھ ہوا تو میرے والد، شیخ مجیب اور ایسے کئی لیڈران محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے تھے۔

یہ ایک تاریخی المیہ ہے کہ پاکستان جن مشکلات سے نکل گیا، اٹہتر سال گزرنے کے بعد بھی اور ایک مضبوط آئین ملنے کے بعد بھی پاکستان کو بہت سے دشواریاں ہیں، وہ سول قیادت کا اقتدارکہیں رہ گیا جو مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب اور مغربی پاکستان سے بھٹو جیسی جمہوری قوتوں کا تسلسل تھا۔ سرد جنگ کے زمانوں میں بھٹو بھی خطرہ تھے اور سرد جنگ کے مفادات کی خاطر بھٹو کو ہٹایا گیا۔

بے نظیر بھٹو ایک جمہوری قوت تھیں۔ میثاقِ جمہوریت کیا گیا اور پھر ان جمہوری قوتوں سے نمٹنے کے لیے عمران خان کو میدان میں اتارا گیا۔ اس وقت کوئی سرد جنگ نہ تھی، مگر اس کے پسِ پردہ بھی وہ ہی لوگ تھے جو پاکستان کو مستحکم دیکھنا نہیں چاہتے۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد منشیات کا کاروبار، اسمگلنگ، اسلحہ کا کاروبار کرنے والی اشرافیہ ہمیں ملی جو سیاست کا حصہ بن گئے۔ ان کے کاروبارکے لیے سیاست کا حصہ بننا بہت ضروری تھا اور اس اشرافیہ میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جنھوں نے افغان جہاد کے پیسے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کروائے۔

یہاں سیاست بہت مہنگی ہوگئی۔ سیاسی جماعتوں کی قیادتوں نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کی نشستیں بھی بھاری پارٹی فنڈز لے کر ایک طرح سے فروخت کیں۔ ایک عام آدمی قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔

پھر ایک معذور جمہوریت ! اور اب تو نہ مارشل لا لگانے کی ضرورت ہے نہ ہی شبِ خون مارنے کی اور نہ ہی عزیز ہم وطنوں کے الفاظ کہنے کی ضرورت ہے۔

ایک بات مثبت نظر آرہی ہے کہ اس دھڑے کو شکست ہوتے ہوئے نظرآرہی ہے جن کی جڑیں اسمگلنگ، منشیات، اسلحہ کے کاروبار، خودکش حملہ آور تیارکرنے والے سیاسی نظام میں تھیں۔

معاملات اب بھی ہائبرڈ ہیں،کل فیس بک پرکسی نون لیگ کے کارکن نے یہ پوسٹ کیا تھا کہ جنرل پاشا آئے چلے گئے، مشرف آئے چلے گئے، ظہیر الاسلام آئے چلے گئے، اگرکوئی نہ گیا تو وہ ہے نواز شریف۔ مگر حقیقت کیا ہے؟

جنرل پاشا ایک فرد تھے، یونیفارم نہیں۔ اسی طرح دوسرے بھی فرد تھے اور چلے گئے مگر وردی نہیں گئی۔ وردی اب بھی یہیں ہے، بس لوگ چلے گئے۔ اب میاں صاحب سمجھوتہ کرنے والے میاں صاحب ہیں، وہ نہیں جوکہتے تھے کہ’’ ووٹ کو عزت دو‘‘

یہ پاکستان جوکل تک مغربی پاکستان تھا، اس کی سیاست مڈل کلاس سیاست نہیں بلکہ اس کی سیاست وڈیروں، پیروں، سرداروںکی دسترس میں کل بھی تھی اورآج بھی ہے اور پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہی یہی ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے، جس کا علاج تو ہے مگر ہم کرنا نہیں چاہتے۔

Load Next Story